دھڑکنوں کی زبان…چلو کہنے دو میرے کان میں کچھ

………محمد جاوید حیات……..

ایک سیاسی چچا ہمارے گاؤں میں رہتا ہے۔بے اس کو ملک و قوم سے محبت ہے۔پاک سر زمین سے دل و جان سے پیار کرتا ہے۔۔کسی قومی نغمے کا بول آتا ہوتو اس کو گنگناتا ہے۔قائد اعظم تیرا احسان کہتا ہے۔پاکستان زندہ باد کہتا ہے۔جہاد کشمیرکو یاد کرتا ہے۔جہاد کشمیر میں شریک ان لوگوں کے سنائے ہوئے قصے لہک لہک کر سناتا ہے۔۔سن پنسٹھ کی جنگ کا چشم دید گواہ ہے ا س دور کے قومی نغموں کے بول ترنم سے سناتا ہے۔۔مطلق العنان حکمرانوں اور جمہوری حکمرانوں کے نام یاد ہیں۔ان کی فہرست ترتیب سے یاد ہے۔کسی کی خوبیاں کسی کے نقائص گنتا ہے۔پڑھا لکھا نہیں ہے لیکن بات کرنے کا انداز بہت دلکش ہے۔جب وہ کسی اردو اور انگریزی کا لفظ غلط بولتا ہے تو سننے والا بے اختیار ہنستا ہے۔جب وہ سٹیٹ کو ”اشٹیٹ“ بولتا ہے۔۔جب وہ لسٹ کو ”لشٹ“ بولتا ہے۔جب پارلمنٹ کو ”پارلیمن“ بولتا ہے۔۔جب بیوٹی فل کو ”بیوٹی فور“ بولتا ہے۔تو سننے والا اپنا ہوش کھو دیتا ہے۔چچا کے سیاسی نام ہیں۔۔البتہ چچا وفاداریاں بہت تبدیل کرتا ہے۔تو کچھ من چلے اسکو لوٹا بھی کہتے ہیں لیکن وہ دلائل سے سب کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اگرچہ قائل نہیں کر سکتا لیکن اس کی موجودگی میں ڈیبیٹ ضرور ہوتا ہے۔چچا کوبے روز گاری اور قیمتوں میں اضافے سے سخت نفرت ہے۔بے روزگاری اور قیمتوں میں اضافے کو بنیاد بنا کر ڈیبیٹ میں اس کوہرایا جاسکتا ہے۔آج کل جس کی یہ حمایتی ہے اس کو ڈیبیٹ میں آسانی سے ہراتے ہیں وہ غصے میں بپھرجاتا ہے خاموش ہوتا ہے پھر خود کلام شروع کرتا ہے۔کہتا ہے ایوب خان نے روزگار لایا۔وہ افغانستان میں روس کی شکست کو جنرل ضیاء کے نام کرتا ہے۔لواری ٹنل مشرف کے نام کرتا ہے۔۔اٹم بم بٹھو کو دے دیتا ہے۔موٹر وے اس نے دیکھا نہیں ہے۔اس لئے اس کا کرڈیٹ کسی کو نہیں دیتا۔ہر الیکشن میں ووٹ دینے جاتا ہے۔اس کے خیال میں جس کواس نے ووٹ دیا ہے وہ کامیاب ہے حالانکہ اس کا ووٹ کس کے حق میں گیا اس کو پتہ نہیں ہوتا۔ایک جمعہ پڑھنے ہم جامع مسجد گئے اتفاق سے صف میں وہ میرے پہلو میں بیٹھے۔آج ایک پڑھا لکھا غیر روایتی مولانا تقریر کر رہا تھا۔۔انھوں نے اسلام کے اس زرین دور کا ذکر چھیڑا۔انھوں نے خدا کے رسول ﷺ کی تربیت کردہ اصحابؓاو ر اس معاشرے کاذکرکیا انھوں نے خلیفہ رسول ﷺ کی وہ پہلی تقریر پوری بیان کی۔انھوں نے خلیفہ کے مراعات کا ذکرکیا۔انھوں نے اس کی سادہ زندگی کا ذکرکیا۔انھوں نے فاروق اعظم ؓ کے دور کا ذکر کیا۔۔مولانا نے اونچی آواز میں کہا کہ فاروق اعظم ؓ نے اسلامی خلافت کا وہ نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک عالم انسانیت کے لئے مثال ہے۔انھوں نے صحابہ ؓ کی ایمانداری،صداقت،قناعت، ایثار اوران کی پاکیزہ زندگیوں کا ذکرکیا۔وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ذکر کیا۔میں نے محسوس کیا کہ میرے پہلو میں سسک رہا ہے ۔میں دیکھا کہ چچا رورہا ہے۔دامن آنسوؤں سے تر ہو رہا ہے۔میں چھینپ ساگیا۔تقریر ختم ہوئی۔جمعہ پڑھی گئی۔لیکن چچا نے میرا پہلو نہ چھوڑا سنتیں بھی میرے پہلو میں کھڑے پڑھی۔جب میں مسجدسے نکل رہا تھا تو میرے پیچھے پیچھے مسجد سے نکلا۔باہرآکرمیرے کان میں کہا۔۔بیٹا!تھوڑا سا کام ہے۔۔میں نے کہا چیرمین چچا کیا کام ہے۔۔انھوں نے کہا اکیلے میں کام ہے۔میں ان کے ساتھ تھوڑا سا لوگوں سے کسک کر اکیلا وگیا۔تب انھوں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔۔بیٹا!مولاناسب کچھ سچ کہہ رہا تھا نا!میں نے کہا ہاں چچا بالکل سچ کہہ رہا تھا دنیا نے یہ منظر دیکھی ہے۔ہاں چچا!دنیا نے زمین میں جنت کا منظر دیکھی ہے۔۔امن،چین،سکون،ایثا رو قربانی،صد ق وصداقت اور ایمانداری کے چمپئین کو اپنی انکھوں سے دیکھا ہے۔دنیا نے عدالت کا وہ معیار دیکھی ہے کہ حکمران قاضی کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے۔آقا ہارتا ہے غلام جیتا ہے۔مجر م خود آکرعدالت سے گزارش کرتا ہے کہ مجھے میرے گناہ کی سزا دو۔محافظ ملک و قوم کے لئے خوشی خوشی جان دیتا ہے۔ذمہ دار وقت کو،مال کو اور جان کو قوم کی امانت سمجھتا ہے۔تاجر صادق اور امین ہے۔نمائندہ سچے خادم کا کردار ادا کر رہا ہے۔ایک دوسرے کی جان و مال عزت و آبرو سب کے سامنے مقدم ومحترم ہے۔۔یہ افسانے نہیں ہیں چچا یہ حقیقت ہیں۔۔چچا نے آنسو پونجھتے ہوئے کہا۔۔بیٹا!یہی تو ہمارے آبا و اجداد تھے یہی ہمارے لئے ماڈل اور مثال تھے۔لیکن چچا اب ہم حکمرانوں سے بھی شکوہ نہیں کر سکتے۔ہم خود اپنے پانچ فٹ بدن میں ٹھیک نہیں ہیں۔اپنے آپ کی اصلاح ہم سے نہیں ہو سکتی دوسروں کی انگشت نمائی کیسی۔۔آج سیاست گالی بن گئی ہے حالانکہ یہ خدمت ہوا کرتی تھی یہ خدمت نمائندوں سے ہوتی حکمرانوں سے ہوتی۔اب نہیں ہوتی۔۔کوئی اپنا فرض ادا نہیں کرتا۔کوئی دوسروں کے حق کا خیال نہیں رکھتا اب ہم حمایت کس کی کریں مخالفت کس کی کریں۔۔چچا قصور حکمرانوں کا نہیں۔۔ہم سب قصور وارہیں۔۔ہماری حمایت اور مخالفت دونوں آنکھیں بند کرکے ہیں۔اس سے اصلاح نہیں آتی۔۔چچا تم بھی احتیاط کرو اگر کسی کی حمایت کرنی ہو تو ہزار بار سوچواور اگر مخالفت کرنی ہو تو دس ہزار بار سوچو۔۔ پھر چچا نے میرے کان میں کچھ کہا۔۔مجھے اس پہ ٹوٹ کے پیار آیا۔۔۔شاید اس نے یہ کہا ہو ۔۔۔بیٹا!میں نے سیاست چھوڑ دی۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔