ہماری قیادت کا پھر امتحان

…………تحریر: تقدیرہ خان……..

آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین اور سابق سپہ سالا ر اعلیٰ جنرل پرویز مشرف کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو ملاقات کا وقت نہیں دیتے جس کسی کی بذریعہ ٹیلی فون، خط، ای میل، ٹیلی فون موبائل پیغام پاورزٹنگ کارڈ اُن تک رسائی ہو جائے وہ ایک ہی جواب دیتے کہ جب آپ کو آسانی ہو آجائیے میں حاضر ہوں۔ وہ کام بھی کرتے رہتے تھے اور مہمانوں سے باب چیت بھی جاری رہتی تھی۔ وہ مہمانوں میں کوئی تفریق نہ کرتے تھے۔ اگر چند لوگ بیٹھے ہیں اور کسی نئے مہمان کی آمد کی اطلاع آجاتی تو اسے بھی بلا کر شریک محفل کر لیتے۔ حال احوال بوچھ کر کہتے ہیں کسی کام سے آئے ہو؟ اگر کسی کو کئی مسئلہ ہو تو سب سے پہلے اسے حل کرتے تاکہ آنیوآسانی محسوس کر ے۔ جنرل پزویز مشرف اپنی ابتدائی فوج زندگی سے لیکر بحیثیت چیف آف آرمی سٹاف اور صدر مملکت جیسے عہدوں پر فائز رہنے کے بعد شدید علالت تک ایک ہی انداز زندگی پر قائم رہے او رکبھی مصنوعی پن، تکبر اورر عونت کو قریب نہ آنے دیا۔ وہ ہر شخص کے ساتھ اُس کے مزاج کے مطابق برتاؤ کرتے تاکہ اُس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ جو بھی شخص اُن سے ایک بار ملتا وہ اُن کا دوست بن جاتا اور کھل اُن کے سامنے اظہار بھی خیال کرتا۔
دیکھا جائے تو ایک اچھے اور عوام دوست قائد میں ایسی خوبیوں کا ہونا اشد ضروری ہے۔ نمائشی اور شوکیں قیادت کبھی ملک اور قوم کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسے خود ساختہ قائدین کوئی بڑا اور جرات مندانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف جب تک مشرف اور سیاسی شعبدہ بازوں سے دور رہے اُن کی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں سے ملک مضبوط ہوا اور قوم اُن پر اعتماد کرتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف کی زندگی میں جو بھی اُتار چڑھاؤ آیا اُس کی وجہ اُن کے سیاسی مشیر اور بیوروکریسی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کو جب غلطیوں کا احساس ہوا اورا ُنہوں نے نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی تو بہت کچھ اُن کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ سیاسی وزیر اور مشیر رویہ بدل چکے تھے اور نوکر شاہی نئے بادشاہوں کی قدم بوسی کے لیے تیار یوں میں مصروف تھی۔ قوموں کی عزت قیادت سے ہوتی ہے۔ قیادت قوم کی پہچان اور عزت و سربلندی کا میعار ہوتی ہے۔ نپولین کا قول ہے کہ بارہ سینگوں کا رپوڑشیر کی قیادت میں شیروں کی طرح حملہ آور ہوتا ہے اور شیروں کا غول بارہ سینگے کی قیادت میں میدان سے بھاگ جاتاہے۔
عربی کی کہاوت ہے کہ سو اونٹوں کی قطار کے آگے ایک گدھا باندھ دیا جائے تو قافلہ کبھی منزل پر نہیں پہنچتا۔ یہی حال قوموں کا ہے۔ گائیڈ، قائد اور لیڈر قوم کے عروج کا باعث بنتے ہیں۔ عالمی سیاست میں گریٹ گیم کانظریہ عہد جدید کی ایسی اختراع ہے جسے سمجھنا اور اُس پر رد عمل ظاہر کرنا مد مقابل قائدین کی صلاحیتوں کا صل امتحان ہے۔ گریٹ گیم کا نظریہ پیش کرنے والا برطانوی دانشور کیپٹن کنولی خود اسی نظریے کے جال میں پھنس گیا اور خیوا کے خان ہاتھوں ذلت کی موت مارا گیا۔ جس طرح گریٹ گیم کے کھلاڑی اپنی چالیں بلدتے رہتے ہیں اس طرح ان کے حدف ان چالوں کو سمجھنے اور اُسکا توڑ نکالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ حالیہ دور میں عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر القذافی، مصر کے حسنِ مبارک اور اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ ایران اور گریٹ گیم کی بھینٹ چڑھ گئے۔
گریٹ گیم کا مستقل میدان برصغیر پاک و ہند، افغانستان، ایران، جزیرہ نما عرب، ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستیں رہی ہیں اور آج بھی گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کی نظر انہیں ممالک پر ہے۔
جنوبی کوریا، جاپان، سعودی عربیہ، مصر، بھارت، عرب امارات اور افریقن عرب ممالک پہلے ہی باجگزاری قبول کر چکی ہیں۔ یہ ممالک یورپ اور امریکہ کے خاموش اتحادی اور لانچنگ پیڈ ہیں۔ شمالی کوریا جنوربی کوریا کے سر پر مسلط ہے اور کسی بھی طرح امریکی دباؤ میں آکر اپنی فوجی قوت کم کرنے اور باجگزاری کی طرف مائل نہیں ہو رہا۔ جاپان سمیت خطہ کے دیگر ملکوں کو بھی شمالی کوریاسے خطرہ ہے چونکہ یہ سب قومیں امریکی چھتری کے سائے میں ہیں۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے غیر جانبدارانہ لائن اختیار کر رکھی ہے اور ساری قوم اپنے قائد پر اعتماد کرتی ہے۔ جب تک قومی اتحاد میں نقب نہ لگائی جائے قومیں زوال پذیر نہیں ہوتیں اور نہ ہی گریٹ گیم کے اثرات قبول کرتی ہیں۔ وسطی ایشیائی ریاستیں مکمل خود مختار ی کے باوجود روسی دفاعی نظام کا حصہ ہیں جس کی وجہ سے امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے ان ریاستوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی بڑی کوشش نہیں کی۔ وسطی ایشیائی ریاستوں کو روس، چین، ترکی اور ایران کی ہمسائیگی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان چاروں ملکوں سے ان ریاستوں کے تاریخی تہذیبی اور ثقافتی رشتے اور تعلق قائم ہیں۔ چین ان ریاستوں کی ترقی پر کا م کر رہا ہے جبکہ روسی ان کے دفاع کے ذمہ دار ہیں۔ ترکی اور ایران کے لیے یہ ممالک تجارتی منڈیاں ہی نہیں بلکہ کسی حدتک دفاعی حصار بھی ہیں۔
افغانستان 1747ء سے پہلے ایران کا ہی صوبہ تھا۔ لفظ افغان کامطلب افغان قوم نہیں بلکہ کوہ سلیمان کے دونوں طرف بسنے والے وہ قبائل ہیں جن کے آباؤ اجداد بخت نصر کے دور میں بابل سے ایران لائے گئے اور پھر سارس اوّل نے انہیں غلامی سے نجات دلا کر کوہ سلیمان میں بسنے کی اجازت دی۔ افغان، پٹھان اور پختون قبائل افغانستان کے ایک حصے میں آباد ہیں جبکہ افغانستان کے پچیس صوبوں میں ازبک، تاجک، ترکمان اور ہزارہ قبائل کے علاوہ دیگر قبائل آباد ہیں جو نسلاً تیموری اور سلجوقی ترک ہی ہیں۔
افغانستان کے سبھی قبائل اگرچہ باہمی اتحاد کے عادی نہیں مگر طویل جنگوں کے شوقین ہیں۔ افغانستان میں بسنے والے سبھی قبائل اپنے اپنے قبیلے کی بانگ اور قبائلی روایات کے مطابق جنگوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک سپر پاور کی کوئی اہمیت نہیں۔ سکندر اعظم سے لیکر برطانیہ، روس اور اب امریکہ سمیت ساری دنیا میں پھیلے امریکہ اور یورپی اتحادی اپنے اپنے وقت میں افغانوں کو زیر کرنے آئے اور لاشوں کے ڈھیر اٹھاکر چلے گئے۔ علاقہ اقبال نے سچ کہا تھا جب تک افغانستان کے پہاڑ قائم ہیں افغان بھی قائم رہینگے۔
ایران اور افغانستان ایک ہی سرزمین کے دو نام ہیں اور قبائل کے درمیان مضبوط روحانی اور نسلی رشتہ صدیوں سے قائم ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان اس خطہ زمین کا اہم ملک ہونے کے باوجود تاجر پیشہ قائدین کی تاجرانہ اور مفاد پر ستار سوچ کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی زرداری گروپ اورنواز لیگ کے مریم گروپ نے ملک کو خستہ حال اور قوم کو بدحال کر دیا ہے۔ پاکستان کی شہ رگ دس سال تک فضل الرحمن جیسے شخص کے ہاتھوں دبائے رکھی او ربھارت نوازی میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش ہوتی رہیں۔کبھی مسئلہ کشمیر کو تین سال تک منجمند کرنے کے اور کبھی نیوکلیئر سٹرائیک میں پہل نہ کرنے کے پیغامات دیے گئے۔ کبھی جندال کو مری بلا کر اہم پیغامات دیے گئے اور کبھی پاکستان اور اسلام دشمن مودی کو جاتی عمرا میں دعوت دیکر قومی عزت و وقار پر سیاہ دھبہ لگا یا گیا۔ سعودی عرب اوریمن کے درمیان جنگ پر غیر سنجیدہ سفارت کاری اور یازاری سیایسی بیان بازی پر سعودی عرب اور امارات کے حکمرانوں نے بھارت کو گلے لگایا اور سرزمین عرب پرنہ صرف بتوں کی پوجا کو جائز قرار دیکر مودی کے ہاتھوں مندر کی بنیاد رکھوائی بلکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں کھربو ں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کر ڈالی۔ بھارت میں قدیم ترین مساجد مسمار کرنیوالے جنونی ہندوؤں کو اپنے ہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا اور اسلامی روایات و اقدار کا جنازہ نکال دیا۔
یہ سب کچھ میاں نواز شریف جیسے تاجر پیشہ لیڈر کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اسمبلی میں دیئے گئے اُس طویل اور انتہائی غیر سنجیدہ بیان کے بعد ہوا جس میں موصوف نے اپنے عظیم قائد کے حکم پر قوم اسمبلی میں ایک طویل فہرست پیش کی جس کی وجہ سے سعود ی عرب اور عرب امارات کے شیوخ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ بدلے میں ہم نے نہ صرف عرب ممالک کی سفارتی اور اخلاقی حمائیت کھو دی بلکہ ششماسوراج کو او آئی سی کی کرسی پر بٹھانے کا اہتمام بھی کر ڈالا۔
میاں نواز شریف نے پانچ سال تک کوئی وزیر خارجہ ہی مقرر نہ کیا اور نہ ہی خارجہ پالیسی پر توجہ دی۔ موجودہ دور میں دنیا کے حالات لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہیں۔دنیا جس تیزی سے اپنے اختتام کی طرف مائل ہے قومیں اسی قدر چوکنی ہیں۔ ذرا اس ملک کے عوام اور حکمرانوں کی بے حسی پر توجہ کریں تو ہمیں 14ویں اور15ویں صدی کے آرام طلب، کھابہ خور، عیش پرست اور عوام کا خون چوسنے والے حکمران ملے ہیں اور عوام کے ذہن کند ذہن حکمرانوں سے ہم آہنگ ہیں۔ جس قوم کو جادہ و منزل کا احساس نہ ہوان کے ووٹ کی عزت کا نعرہ اُن کے پیٹ اور عزت نفس کی پامالی کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ کوئی سیاسی لیڈر اپنے ووٹرں کو نہیں کہتا کہ جب جی چاہیے آجاؤ میں حاضر ہوں وہ کہے بھی کیسے؟ وہ اکثر ملک سے غیر حاضر یا پھر ملک میں رہ کر غیر ملکی اقامہ ہولڈر ہوتا ہے۔
نواز شریف اور زرداری کی مہربانیوں سے عربوں اور بھارتیوں کی دوستی نے ہمیں عملاً فٹ بال نیشن بنا دیا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل باجوہ نے نہ صرف ملک کے اندر حالات درست کیے بلکہ عرب ممالک سمیت دیگر ملکوں کے ساتھ ملٹری سفارتکاری کی بنیاد ڈالی۔ حال ہی میں کوالالمپور کانفرنس کے موقع پر ہمیں جس سُبکی کا سامنا کرنا پڑا اس کا کڑوا بیج خواجہ آصف نے بویا جواب ہماری قوم کے لیے تھوہر کا درخت بن گیا ہے۔ ہماری معاشی اور سفاری مجبوریاں اسقدر ہیں کہ ہم لہولہان ہونے کے باوجوداس شجر خاردار کو سینے سے لگانے پر مجبور ہیں۔
ایک طرف ترکی اور ملائیشیاکے قائدین ہیں کہ وہ ہماری مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے بحیثیت قوم ہمارے ہمدرداور غمگسار ہیں اور دوسری طرف بلال، مشاہد اللہ اور کاہرہ جیسے لیڈر ہیں جو طعنوں اور تشنوں کے تیر چلانے سے باز نہیں آئے۔
جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ساری دنیا الرٹ ہے مگر پاکستانی سیاسی قیادت آپس میں اُلجھی ہوئی اور مفاد پرستی کی سیاست میں مصروف ہے۔بظاہر تو آرمی چیف کی مدت ملازمت، تقریری اور توسیع کا مسئلہ حل ہو گیا ہے مگر چھیڑ چھاڑاور عدلیہ اور فوج کے درمیان چپقلش پیدا کرنے کا خطرہ باقی ہے۔ اتھارویں ترمیم کے خالق رضا ربانی کی پریس کانفرنس اور مولانا فضل الرحمن کے بیان میں بڑی حد تک مماثلت ہے جس سے سیاسی قائدین کی سوچ اور قومی مفاد کی فکر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکومتی صفوں میں بیٹھے کچھ تمائش بین بھی اس سودے بازی میں خاموش کردارادا کر رہے ہیں جنرل سلیمانی کا قتل ایک بڑاعالمی سانحہ ہے۔ مگر پاکستانی قائدین اس آگ کے آلاؤ کے قریب بیٹھے اپنی کرپشن کو قانونی حیثیت دینے اور لوٹے ہوئے مال کو جائز قرار دینے کے قانون پر یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یوں تو وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر نبداری کا عندیہ دیا ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ایران یاخلیجی ممالک میں آگ لگ گئی تو گرمی کی شدت اور تپش سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہیگا۔
فوجی قیادت پوری طرح تیار اور چوکنی ہے مگر اہم فیصلے قومی لیڈروں اور سیاسی قیادت نے کرنے ہیں۔ جس طرح ہماری غلطیوں نے عربوں کو مودی کی گود میں بٹھا دیا اور پھر ملائیشیا میں ہونے والی اہم علاقائی کانفرنس سے ہمیں دور رکھا گیا ایسے ہی ہمیں کسی سخت امتحان میں بھی ڈلا جاسکتا ہے۔ اس وقت ساری دنیا کے عقلمنداور دانشور آنیوالی عالمی جنگ کا ہولناک منظر ریکھ رہے ہیں مگر ہماری ہاں میڈیا اندرونی سازشوں اور مافیا کی کارکردگی پر ساری توانائیاں خرچ کر رہا ہے۔ دنیا ایران اورامریکہ چپقلش پر پریشان اور ہمارے ہاں صندل خٹک اور حریم شاہ پر سیاسی اور صحافتی جنگیں شروع ہو چکی ہیں۔
موجودہ ابتر سیاسی حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان ہی اپنا رول ادا کرتے ہوئے ملکی استحکام کا باعث بن سکتے ہیں چیف جسٹس چاہیں تو جنرل پرویز مشرف کے خلاف ہونے والے فیصلے کو قانون وآئین کی اصل روح کے مطابق ختم کر دیں۔ اور جب تک جنرل مشرف واپس نہیں آتے اسحاق ڈار اور دیگر کی طرح انہیں بھی سنتے اور گواہ پیش کرنے کو موقع دیں۔ جنرل مشرف کے خلاف ہونے والے فیصلے کو پہلے کی متنازع قرار دیا جا چکا ہے اور فوج میں ہر سطح پر اس فیصلہ کی وجہ سے بے چینی ہے جو کسی بھی صورت ملکی مفاد میں نہیں۔ ایران اور امریکہ چپقلش گریٹ گیم کا حصہ ہے جسے سمجھ کر ہمیں کچھ اہم اور بولڈ فیصلے کرنے ہونگے۔ چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کا مسئلہ دن بہ دن پیچیدہ ہورہا ہے۔ خطرہ ہے کہ بھارت امریکہ اور ان کے اتحادی سی پیک کی راہ روکنے کے لیے اس بحران کو تقویت دیں گے۔ شمالی علاقوں میں بھی ہمیں چوکس رہنا ہو گااور مقبوضہ کشمیر سے لے کر بھارت میں ہونے والے مسلم کُش واقعات پر بھی منصوبہ بندی کرنا ہوگئی۔ ایران کے خلاف امریکہ نے کوئی مزید کاروائی کی تو افغانستان خود با خود اس جنگ میں شامل ہو گا جو ہمارے لیے شدید خطرے کا باعث ہوگا۔بھارت اور ایران کے تعلقا ت کی اپنی تاریخ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی افغان حکومت اور بھارت کی دوستی پر انکھیں بند کی جا سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان نئی گریٹ گیم کا فوکل پوئنٹ بن چکا ہے اور ہماری قیادت کا کڑا امتحان ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔