داد بیداد….علم وادب کا امتزاج

……ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
اُن کے دائیں بائیں طرف تفسیر اور حدیث کی بڑی بڑی کتا بیں ہوا کر تی ہیں یہ تفسیر جلا لین ہے یہ تفسیر ابن کثیر ہے یہ بخا ری ہے وہ مسنداحمد ہے یہ نسائی ہے وہ تِر مذی ہے سامنے تین شعراء بیٹھے ہیں حبیب اللہ بیدار سے کہتے ہیں تازہ غزل سناؤ پھر شاکر اللہ انجم سے کہتے ہیں اب تمہاری باری ہے پھر نقیب اللہ رازی سے کہتے ہیں آج کیا سناو گے؟ ہر شاعر کی اصلاح بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں شعر میں خیال پر کوئی پا بندی نہیں مگر ہیئت اور شعری سانچے پر علم عروض کی سخت پا بندیاں ہیں کوئی شعربے وزن ہر گز نہیں ہو نا چاہئیے پھر کہتے ہیں تمہارا بھائی محمود الحسن شعر کیوں کہتا؟ کیا اُس کا ذوق ادبی نہیں یا اُس نے مو زوں طبیعت نہیں پائی؟ ایک جیّت عالم دین کو اپنے بیٹوں کے ساتھ آزاد گفتگو کرتے اور اُن کے کلا م کی اصلا ح کر کے مسلسل ان کی حو صلہ افزائی کرتے ہوئے دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے لیکن مو لانا محمد سعید اللہ مر حوم کی شخصیت میں علم و ادب کا حسین امتزاج تھا ان کے حلقہ احباب کا دائرہ گھر سے شروع ہوتا تھا اور اُن کے بیٹے اس حلقے کے او لین اراکین ہوا کر تے تھے مو لا نا سعید اللہ کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع چترا ل سے تھا انہوں نے دارالعلوم ربانیہ دروش میں مو لا نا تا ج الدین، مو لانا فضل الرحمن المعروف پگڑی استاز مو لا نا شیخ لاسلام اور دیگر جید علمائے کرام سے حا صل کی اُن کا آبائی گاوں برگہ شیشی کوہ دروش کے نزدیک واقع تھا اس گاوں میں اٹھا رویں اور انیسویں صدی میں نا مور بزرگ اور مشائخ گذرے ہیں جنہوں نے اُس زمانے میں پیدل حج بیت اللہ کی سعادت حا صل کی اُس زمانے میں ریا ست چترال کے اندر دو ریا ستی دارلعلوم تھے دار لعلوم ربانیہ دروش اور دارلعلوم اسلامیہ چترال 1969ء میں ریا ست کے انضمام کے وقت دونوں اداروں کو محکمہ تعلیم کی تحویل میں دیدیا گیا دارلعلوم ربانیہ سے سند لینے کے بعد مو لانا سید حسن لاہور کے دست حق پر ست پرسلسلہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے انہوں نے مو لانا کو خر قہ خلافت بھی عطا کیا آپ کو محکمہ تعلیم میں معلم دینیات مقر کیاگیا اس حیثیت میں آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول ایون، مڈل سکول مڈ کلشٹ اور مڈل سکول بر گہ نسار میں خد مات انجام دیے ایون میں قیام کے دوران علام عمر، مو لا نگاہ اور عبدا لرحمن کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے مو لانا محمد مُستجاب ؒ کے ساتھ ارادت کا رشتہ پہلے سے استوار تھا ان کی مجلس ذکر میں ہمیشہ شریک رہتے تھے کبھی سلوک کے مسائل اور کبھی دیگر علمی مباحث میں حضرت کے ساتھ شر کت کا اعزاز پاتے تھے آپ کے والد گرامی محمد قاسم اللہ بھی علماء و مشائخ کے قدر دان تھے اسی وجہ سے آپ کو دینی تعلیم دلائی اور اپنے لئے صدقہ جاریہ کے اسباب فراہم کئے جمعیت العلمائے اسلام کے ساتھ آپ کے درینہ تعلق تھا ملا زمت کے دوران بھی اپنی مخصوص انداز اور اسلوب میں اس تعلق کو نبھا یا ملا زمت سے ریٹائر منٹ کے بعد آپ کو جمعیت العلمائے اسلام چترال کا امیر منتخب کیا گیا 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف چترال سے آپ نے آواز اُٹھا ئی 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے آپ کی قیادت میں بھر پور انتخا بی مہم چلا ئی گئی چترال سے قو می اسمبلی کی واحد نشست کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی دو نوں نشستوں پر علمائے کرام کو جتوا یا گیا مو لانا عبدلاکبر چترالی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مو لانا جہانگیر اور مولانا عبدا لرحمن صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب کئے گئے مو لانا محمد سعید اللہ کی فطرت میں معتدل مزا جی تھی جلسوں میں کا رکنوں کے جو ش و خروش کو دیکھتے ہوئے آپ نے کبھی مخا لفین کے خلاف سخت زبان استعمال نہیں کی سیا سی میدان میں الزام ترا شی کو آپ ہمیشہ بہتان کے زمرے میں ڈالتے تھے اور بہتان سے پر ہیز کرتے تھے اس لئے آپ کی شخصیت سب کے لئے قابل قبول تھی علمی اور سیا سی میدان میں نا مور شخصیت ہونے کے باو جود آپ کی طبیعت میں خود داری، درویشی اور فقیری تھی آپ نے اپنا اثر رسوخ کبھی ذاتی مفاد کے لئے استعمال نہیں کیا قنا عت کے لباس میں یہ خو بی ہوتی ہے کہ اس میں پیوند تو ہوتے ہیں اس پر داغ نہیں ہو تا دوست احباب کی مخفل میں آپ کہا کرتے تھے میں نے شعرو شا عری سے بہت شفف رکھا،بہت اشعار کہے، اپنے آپ کو خود کلامی میں سنا، کبھی کا غذ پر نہیں لکھا ذہن پر بھی بوجھ نہیں ڈا لا کوئی شعر محفوظ کرنے کی نیت سے یا د نہیں کیا آج ان کا بیٹا مو لانا محمد نقیب اللہ رازی 7کتابوں کا مصنف ہے انکے نعتیہ مجمو عے کو سیرت ایوارڈ بھی مل چکا ہے اردو اور کھوار میں دو شعری مجمو عے بھی شائع ہو چکے ہیں گو یا مو لانا محمد سعید اللہ کا فیض علم و ادب کے میدان میں برا بر جا ری ہے آپ کے پو تے اور نو ا سے بھی حا فظ قرآن ہیں یہ وہ سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔