ہڑتال اور غریب کا روُزینہ

تحریر: الحاج محمد خان۔۔۔۔۔۔۔

دُنیا کو دیکھنے کے لئے ہمارے ملک میں، چند شہروں اور اسٹریٹس کے علاوہ، ہر ایک اسٹریٹ کو چند لمحوں کیلئے قریب سے دیکھا جائے تو پوری دُنیا اور اُس کی ہر ایک رنگ نظر آجاتی ہے۔  پشاور میں پیر کے روز سے، جوکہ آج بروز منگل بھی جاری ہے، بانیان نے ہڑتال جاری رکھا۔گردوپیش دیکھ کر اور اس پرسوچتا ہوا ایک راستے سے گزرا تو دیکھا کہ ایک گاڑی کھڑی تھی جس میں ایک ڈرائیورکے ساتھ ایک شخص بیٹھا ٹیلی فون پہ بات کررہا تھا۔ گاڑی کے پیچھے ایک پولیس اُس کی سیکورٹی کیلئے چوکس کھڑی تھی۔ سامنے دیکھا تو ایک شخص سائیکل کودھکے دے کر آرہا تھا۔ سائیکل خراب نہ تھی بلکہ سائیکل میں اُس شخص کے اتنے ساماں تھے جہاں وہ بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ دیکھنے سے ایسا لگا کہ وہ اپنا کاروبار سمیٹھ کر واپس جارہا تھا، اور منظر عام تھی کہ یہ سائیکل اُس شخص کی پوری دُنیا تھی جسے وہ سواری سمیت کاروبار زندگی کا پہیہ چلانے کیلئے بھی استعمال کرتا ہے۔ اگر کوئی اس سائیکل والے کا موازنہ قریب  روڈ میں بیٹھے اجرتی مزدور، جو روزانہ قریب راستے میں کام کی تلاش میں آکر بیٹھتا ہے، سے کر لے تو ایک بہت بڑا فرق نظر آجائی گی۔ سائیکل والے کا اپنا کاروبار ہے کچھ نہ کچھ دن میں کما ہی لیتا ہے اور اس اجرتی مزدور کو ، کام اگر نہ ملا، تین تو کیا دو وقت کا کھانا بھی نہ ملنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ گاڑی والے کا سائیکل والے سے موازنہ نہیں ہوسکتا، اور شاید سائیکل والے کا اجرتی مزدور سے بمشکل چند اسپیکٹ میں ہو  بھی سکے تو فرق پھر بھی واضح ہے۔ یہ ہمارے ملک میں امیر و غریب کے درمیان فرق کو دیکھنے کا ایک پہلو ہے جس کے کئی ایک اور جہت موجود ہوتے ہیں۔   

پشاور میں بانیان کا ہڑتال آج بھی جاری ہے لوگوں کوکھانے کیلئے روٹی مل نہیں رہا۔بانیان نے ہڑتال اس لئے کی کہ اُنکو بازار سے گندم کا آٹا مل نہیں رہا، اور جو مشکل سے مل بھی رہا ہے اس میں ایک کلو آٹے پر بیس روپیہ اضافہ میں بک رہا ہے۔ تندور والے کو  ایک طرف آٹا مل نہیں رہا اور دوسری طرف مہنگا آٹا ملنے پر فائدہ کم۔اوریہ مہنگائی کا بوجھ تو تندور والوں کو باہر لے آیاتھا جس سے کتنے لوگوں کو کھانے کے لئے روٹی نہ ملا اور خاص کر روزانہ اجرتی مزدور کو نہ کام ملا اور اسکا روُزینہ غیر یقینی۔ اور وہ لوگ  جو تندور سے دس روپے کا روٹی خرید کر پیٹ کی پیاس بجھاتے تھے تو اُن کو اس ہڑتال کی وجہ سے کھانے کیلئے بھی کچھ نہ ملا ہوگا؟

حسب معمول دیکھا تو اُس خاص راستے میں اجرتی مزدور بیٹھا کرتے تھے وہ موجود نہیں تھے بلکہ وہ چند “لوگ” جو تندور کے قریب ہی بیٹھ کر دس روپے میں ایک روٹی خرید کر کھایا کرتے تھے وہ بھی کہاں چلے گئے تھے۔بانیان کا ہڑتال اُن لوگوں کا ڈھیرا تبدیل کرچُکا تھا وہ کہاں چلے گئے تھے معلوم نہیں۔ جس تندور کے سامنے روڈ پر وہ اجرتی مزدور روزانہ بیٹھ کر ہر اُس شخص کو تکتے تھے کہ وہ شاید اُنہیں کام کیلئے لے جائے ، اورمعمولی کام کے بعد، اور نہ ہونے کی صورت میں کم ازکم قریب تندور میں دس روپے کا ایک روٹی لے کر اوراُس روڈ کے پار چائے کے ساتھ، یا پاس میں ریڑی والے سے بیس یا تیس روپے خرچ کرکے اپنا ایک وقت کا کھانا کھا سکتے تھے لیکں آج روزانہ کا وہ معمول نہیں تھا کیونکہ بانیان ہڑتال پر تھے۔

 تندور والے کا کاروبار ایک دن بند ہوتا ہے توبےشک مالک کا نقصان ہوتا ہے لیکں ہزارون کی تعداد میں عام شہری کو روٹی نہیں ملتا، اور خصوصا اجرتی مزدور اور کئی ایک غریب لوگ جو اُس تندور سے کم ازکم  اُنہیں روٹی ملتا تھا، جہاں وہ بیٹھ کر کام بھی تلاش کرتے تھے، اور کھا بھی لیتے تھے وہ گزشتہ دو دنوں سے موجود نہیں۔

جس روڈ پر وہ اجرتی مزدور بیٹھتے ہیں اور اُس روڈ کے پار ریڑی والے کے پاس لوبیا اور کچالو مل جاتا ہے ، پاس ریڑی میں چاٹ، اور چائے کی دوکان بھی ہے جہاں “اُس” طبقے کا فاقہ گردش مٹ جاتا ہے۔ اس روڈ کے دونوں طرف دو بڑے ریستورانت بھی ہیں جہاں کیا نہیں ملتا۔ ہر وہ خوراک جو پشاورمیں مشہور ہیں اور دوردراز سے کھانا کھانے، کباب اور مچھلی کھانے اور لے جانے کیلئےلوگ آتےجاتےہیں۔ گزشتہ ایک دن سے بازار میں روٹی ناپید ہے لیکں وہاں ریستورانت کا اپنا تندور ہے جہاں روٹی معمول کے مطابق پکتی ہے، اور جس کی جتنی گنجائش ہے وہاں جاکر کھانا کھا بھی سکتا ہے اور لے جا بھی سکتا ہے۔لیکں سامنے روڈ پر بیٹھے لوگ اسے سہولت سے فائدہ اُٹھا نہیں سکتے کیونکہ وہ اسے افورڈ نہ کرسکتے ہیں، اوروہاں روٹی ریستورانت سے کھانا کھانے اور لے جانے سے مشروط ہے۔ یہ اُس ریستورانت کا قانون ہے لیکں اسے غریب افورڈ نہیں کرسکتا۔

حکومت کو ملک میں آٹے کی قلت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب ٹی۔وی چینلز لوگوں کوبڑے بڑے لائنوں میں کھڑے مہنگے دامون آٹا خریدتے ہوئے دیکھائے۔ حکومت حرکت میں آگئی اور تندور والوں کوآٹا مناسب داموں پر دینےکی یقین دہاںی بھی کی گئی۔ اور قلت پر سیاسی فلسفہ جو بھی آجاتا ہے وہ کرشمہ سازہے لیکں۔۔۔

 جو لاکھوں کی تعداد میں ملک میں بستے ہیں اُنہیں کل بھی روٹی نہ ملا، اور آج بھی مل نہیں سکتا ان کا کیا ہوگا۔ موجودہ حکومت “احساس”  نام پر ایک پروگرام چلایا ہے ، جوکہ ایک احسن قدم ہے، جو کتنے لوگوں کو ریلیف دے سکتا ہے وہ ملک میں ہڑتال کے دنوں آٹے میں نمک کے برابر ہوسکتا ہے، اورحکومت کو احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھا کر ریاست میں لوگوں کو بنیادی سہولیات باہم پہنچانے پر کام کرنا ہوگا۔

ملک میں آٹے کی قلت کے حوالے سے ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ہرسال کی طرح  گندم کا وہ تخمینہ اسٹاک کہاں چلا گیا؟ کہیں ذخیرہ اندوزی سے،ملک میں سپلائی اور ڈیمانڈ کا ماحول پیدا کرکے قیمت زیادہ کرنے کی کوشش تو نہیں کیا جارہاہے؟ کیا وہ گندم یا آٹا ملک سے باہر سمگلنگ تو نہیں  ہو[چُکا] رہا ہے؟ کیا خیبرپختونخوا حکومت کو گندم اور آٹے کی سپلائی روک تونہیں دی گئی ہے؟ کیا یہ کنٹینیرز کے ہڑتال کا نتیجہ تو نہیں ہے جو چند مہیںے پہلے ہو چُکا تھا جس کا اثر اب عوام پر ہورہا ہے؟ کیا یہ صوبائی اور مرکزی حکومت ، وزیرخوراک اور صوبائی کوارڈنیشن کمیٹیز کی نااہلی اور عدم توجہ کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ میرے خیال میں یہ سارے عوامل اس میں کارفرما ہیں جس سے، پہلے سے مہنگائی کے بوجھ میں دبا ہوا، سب سے زیادہ غریب طبقہ متاثر ہوچُکا ہے۔ اور اس طبقے کو دو دن سے روٹی نہ ملنا بڑا مسلہ ہے بلکہ اُن کا روُزینہ بھی متاثر ہوچُکا ہے یہ سب سے بڑا مسلہ ہے جوکہ مزید زیادہ ہونے کا اندیشہ پریشانی کا باعث ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔