محکمہ صحت کے ساتھ ناانصافی

۔…ایس این پیرذادہ….. ۔….
وزیراعظم عمران خان کے مطابق اس ملک میں 45 فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے میل نیوٹریشن کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ جسمانی اور دماغی طاقت سے محروم ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طویل عرصے تک غذائی قلت اور متوازن خوراک کی کمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی اور  جسمانی بیماریوں نے اس قوم کی اکثریت کو ذہنی طور پر مفلوج کرکے سوچنے اور سمجنے کی قدرتی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے،
جسمانی اور ذہنی طور پر معذور قوم کی نفسیات کو مکمل جانچنے کے بعد خان صاحب نے قوم کو اس دلدل سے باہر نکالنے کے لیے فرسودہ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگایا جس کے جواب میں نسبتاً کم غذائی قلت کا شکار پختون قوم نے لبیک کہا اور 2013کے الیکشن میں خان صاحب کو اپنے صوبے کی مسند اقتدار پر بٹھایا،چونکہ خان صاحب کو ہرحالت میں عوام کو کرپشن سے چھٹکارا دلاکر صوبے کو تبدیلی سے روشناس کرانا تھا اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے خان صاحب کی ٹیم نے طویل کوشش اور محنت کے بعد پہلے مرحلے میں کرپشن کا شکار صوبے کے سب سے اہم اور بنیادی محکمہ صحت کے  بوسیدہ نظام کو تبدیل کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا،مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کی خاطر محکمہ صحت میں جدید مانیٹرنگ سسٹم نافذ کرنے کے ساتھ صحت کا انصاف کے نام سے انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے کا آغاز کیا گیا،
عالمی امداد سمیت بھاری اخراجات پر مشتمل اس خوشگوار تبدیلی کا مشاہدہ کرنے کی غرض سےجب محکمہ صحت کا رُخ کیا تو ناقابل یقین قسم کے حالات سے واسطہ پڑا، خطیر رقم خرچ کرکے بنایا گیا مانیٹرنگ سسٹم کا کام صرف اور صرف مہینے میں ایک آدھ دفعہ ہسپتال کی رجسٹر کو چیک کرنے تک محدود تھا،انکی اختیارات کو جانچنے کی خاطر جنرل ڈیوٹی کی خاتمے کے باوجود سفارش کی بنیاد پر اپنے  اسٹیشن کو چھوڑ کر مرضی کے مقام پر مزے کرنے والے چند ملازمین،اپنے ڈیوٹی سے کوتاہی برتنے والے اسٹاف اور پرائیوٹ کلینک چلانے والے ڈاکٹروں کی نشاندھی کرکے انکے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی تو ڈویژنل مانیٹرنگ آفیسر نے پہلے انکے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے کی یقین دھانی کرائی اور بعد میں ڈی ایم او صاحب نے بعض حالات میں ان جرائم کو جائز قرار دے کر خود ہی منظر سے غائب ہوگئے،مانیٹرنگ نظام کی حیثیت کا اندازہ لگانے کے بعد ضلعی سطح پر ہسپتالوں کے انتظام اور منیجمنٹ کا مشاہدہ کیا تو ایسا لگا کہ میں کسی مچھلی منڈی میں کھڑا ہوں جہاں ہر طرف نااہلی کا راج ہے،بد انتظامی اور کرپشن اپنے عروج پر ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کلاس فور ملازمتوں کی خرید وفروخت کے ساتھ اپنے مرضی کے تبادلوں کے حوالے سے حکمران جماعت کے کارکنان اور منتخب نمائندوں کے سیکرٹری صاحبان نے پورے محکمے کو یرغمال بنا رکھا ہے،اور محکمہ کے 20 گریڈ والا سربراہ انکے سامنے بھیگی بلی بن گیا ہے،وہ سیاسی کارکنان جنکی کل تک اپنے گھروں میں بھی کوئی حیثیت نہیں تھی سفارش کی بنیاد پر تعینات مجاز افسروں کا جینا حرام کر رکھے ہیں،اورسرکاری دفتروں میں انکی تابعداری فرض بن چکی ہے، بعض نے تو مناسب عزت نہ ملنے پر ایک مجاز افسر کو عہدے سے اٹھا کر باہر پھینک دیا اور مغافی مانگ کر آیندہ کے لیے تعظیم بجا لانے کی یقین دھانی کے بعد چند ہی دنوں میں اسی عہدے پر بحال کردیا۔جبکہ بعض با اثر سیاسی حضرات نے اس عہدے پر مکمل تابع افسر کی تعیناتی تک چار مرتبہ متعلقہ محکمے کو عین وقت پر کلاس فور ملازمتوں کی قانونی تقرری سے روک دیا۔ اس حسین تجربے سے فارغ ہوکر ضلع کی دو بڑے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کے ساتھ رورل ہیلتھ سنٹرز،بی ایچ یوز اور ڈسپنسریوں کے حالت زار کا جائزہ لیا گیا تو تبدیلی کا ایک بھیانک چہرہ سامنے آیا،
اپرچترال کی دو لاکھ سے زائد آبادی کے لیے قائم واحد سرکاری ہسپتال ٹی ایچ کیو بونی میں بنیادی سہولیات کی فقدان کے ساتھ ناگفتہ بہ حالات میں صرف تین ڈاکٹرز موجود ہیں،جبکہ مریضوں کو حکم دیاگیا ہے کہ شام کے اوقات میں ڈاکٹروں کی سہولت میسر نہیں لہذا وہ ہسپتال آنے کی زحمت نہ کریں،ساتھ ہی دوپہر کے بعد ڈاکٹر کی کرسی پر بابو صاحب تشریف فرما ہوتے ہیں، سروسز کی فراہمی کا یہ عالم ہےکہ سردی سے بچاؤ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مردانہ اور زنانہ وارڈ کو تالہ لگا کر مریضوں کو ایمرجنسی میں داخل کیا جاتا ہے جہاں ہیٹنگ کے لیے دن میں ایک مرتبہ لکڑیوں سے چمنی کو گرم کرنے کا بندوست بہرحال موجود ہے،اور وہ بھی ہسپتال عملہ کی موڈ پر منحصر ہے کہ وہ کب آگ لگا تے ہیں،یا غریبوں کو پورے دن ٹھنڈ میں گزارا کرواتے ہیں، کسی بھی حادثے کے بعد جب مریض کو ایمرجنسی میں لایا جاتاہے تو بابو صاحبان کی طرف سے لواحقین کو ایک چٹی تھما دیا جاتا ہے جس میں ادویات سمیت سیرنج سے لیکر روئی تک فرسٹ ایڈ کی لوازمات شامل ہیں جن کی قیمت مارکیٹ میں 6 سو سے 1 ہزار روپے بنتا ہے کو لیکر فراہم کرنے پر علاج شروع کیا جاتا ہے،1974 سے ایمبولینس کے نام پر ایک کھٹارا ڈاٹسن 4×4 اس ہسپتال میں کھڑا ہے جو لکڑی اور بھوسے لےجانے کے لیے بھی موزوں نہیں لگتا،دوسری جانب ہر مہینے قومی خزانے سے اس ہسپتال کے ملازمین اور دیگر اخراجات پر عوامی ٹیکس کا 30 سے 50 لاکھ روپے مخصوص جیبوں میں چلاجاتاہے،ہسپتال کی ابتر ہوتی صورتحال کو دیکھ کر کم آمدنی والے غریب طبقے نے بھی نا امید ہو کر اس ہسپتال کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے،اگر اس ہسپتال میں غریب عوام کے لیے کوئی سہولت موجود ہے تو وہ ہے پوسٹمارٹم کی سہولت،اگر کوئی غریب غربت اور بےروزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرلے تو پولیس کی نگرانی میں اس ہسپتال میں اسکی میت کو مکمل طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہے،
تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال دروش میں بھی اسی طرح کا صورتحال ہے جہاں گزشتہ 3 سالوں عوام لیڈی ڈاکٹر کا انتظار کر رہے ہیں اور صوبائی حکومت میں اتنی سکت نہیں کہ ایک لیڈی ڈاکٹر کو اس ہسپتال میں تعینات کرسکے،یہاں پر رورل ہیلتھ سنٹرز،بیسک ہیلتھ یونٹس اور سول ڈسپنسریوں کا زکر کرنا بے کار ہوگا جہاں ڈاکٹرز تو کجا بابو اور ڈسپرین بھی میسر نہیں، کہیں پر آر ایچ سی ڈینٹل ٹیکنیشن کے رحم و کرم پر ہے تو کہیں پر فرمیسی ٹیکنیشن ڈاکٹر کی کرسی پر براجمان ہے،اور کہیں پر نرس صاحبہ نے بنیادی مرکز صحت کو فیملی کوارٹر بنا رکھا ہے،
بد ترین تبدیلی کا شکار اس محکمے کے اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کی اہلیت کے معیار کا جائزہ لینے کے لیے وہ دو نوٹیفیکیشن ہی کافی ہیں جب آج سے تقریباً تین مہینے پہلے شدید عوامی تنقید کے نتیجے میں ٹی ایچ کیو ہسپتال بونی کے لیے دو میل اور ایک لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی کا حکم جاری کردیا گیا ،اور اسی دن اس نوٹیفیکیشن کو واپس لیکر ان میں سے دو ڈاکٹروں کو ٹی ایچ کیو ہسپتال دروش اور ایک میل ڈاکٹر کو بونی میں تعینات کردیا،ساتھ ہی ڈی ایچ او صاحب نے بڑے شدومد سے عوامی نمائندوں کو تسلی دی کہ ان ڈاکٹروں کی تعیناتی حکومت کی ریشنلئزیشن پالیسی کے تحت ہوئی ہے اور انکو ہر صورت میں چترال آکر ڈیوٹی کرنی ہوگی بصورت دیگر انکو نوکری سے فارغ کردیا جائے گا،اتنی سخت قانون کو ان  ڈاکٹر صاحبان نے ہؤا میں اڑا کر مذکورہ نوٹیفیکیشن کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور تبدیلی سرکار منہ تکتی رہ گئی۔ اج سے چند دن پہلے باکمال ادارے کی جانب اسی قسم کا ایک اور شاہکار  نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے جسکو سمجھنا مجھ جیسے عام آدمی کی بس کی بات نہیں، میرے حساب سے اسکا اردو زبان میں ترجمہ کچھ یوں ہے،’ مجاز اتھارٹی خوشی کے ساتھ ڈاکٹر حیدر الملک کو بحثیت ڈپٹی ڈی ایچ او ایڈجسٹ کر کے اپنی پرانی حیثیت میں ڈی ایچ او چترال کے خالی آسامی تفویض کرتاہے جس کا صرف اور صرف مقصد ملازمین کو تنخواہیں جاری کرنا ہے، وسیع تر عوامی مفاد میں’،
اب اس نوٹیفیکیشن کی تشریح کے لیے لوئر اور اپرچترال کی انتظامیہ سرپکڑ کر بیٹھے ہیں،دوسری جانب موصوف خود کو اپر چترال کا ڈی ایچ او تسلیم کر کے بغیر اسٹاف اور دفتر کے چارج سنبھال کر واپس گھر چلاگیا۔اس قسم کے محکمے میں تبدیلی کا بھونڈا مذاق اس وقت عوام کے سامنے بےنقاب ہوگیا جب صوبے پر پانچ سال حکمرانی کرنے کے بعد عمران خان صاحب نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ سابق سیکرٹری ہیلتھ نے تین سال تک حکومت کو دھوکا دے کر اس شعبے میں اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا رہا جس کے نتیجے میں عوام کو بروقت تبدیلی کے ثمرات نہ مل سکے۔اب خان صاحب کے اس بیان کو سننے کے بعد اس حکومت میں صحت کے شعبے میں بہتری کی امید کرنا دیوانے کا خواب ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔