مودی سے پناہ مانگنا

……..محمد شریف شکیب……

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نیا انکشاف کیا ہے کہ شہریت کا ترمیمی بل ان اقلیتوں کے لیے ہے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے اور اب پاکستان کو جواب دینا ہو گا کہ گزشتہ 70 برسوں میں وہاں اقلیتوں پر ظلم کیوں کیا گیا۔ مغربی بنگال میں طلبا کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے شہریت کے ترمیمی قانون پر بی جے پی حکومت کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کسی کی شہریت ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ دینے کے لیے ہے۔ نریندر مودی کا کہنا تھا کہ بار بار وضاحت دینے کے باوجود کچھ سیاسی وجوہات کی بنا پر ترمیمی بل کے بارے میں مسلسل ابہام پھیلایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جس طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اس پر آواز ہمارا نوجوان ہی اٹھا رہا ہے۔ اگر ہم شہریت کے قانون میں یہ ترمیم نہ کرتے تو نہ یہ متنازعہ ہوتا اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا کہ پاکستان میں اقلیتوں پر کیسے مظالم ہوئے؟مودی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے یہ قانون راتوں رات نہیں بنایا۔ سی اے اے ان اقلیتوں کے لیے ہے جن پر پاکستان میں مظالم ہوئے۔انہوں نے طلبا سے سوال کیا کہ کیا ہمیں انہیں شہریت نہیں دینی چاہیے؟ کیا ہم انھیں مرنے کے لیے پاکستان بھیج دیں؟‘۔شہریت کے ترمیمی ایکٹ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والی چھ اقلیتوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی تھی تاہم مودی نے اپنی تقریر میں صرف پاکستان پر تنقید کی۔پاکستان سے سیاسی پناہ کی تلاش میں برطانیہ، جرمنی، فرانس، نیدر لینڈ، آسٹریلیا اور امریکہ جانے والے بہت ہیں۔ وہ لوگ بھی اپنے ملک سے محبت تو کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں کے خوشحال مستقبل کا جو خواب انہوں نے آنکھوں میں سجا رکھا ہوتاہے اس کا اپنے ملک میں مستقبل قریب میں شرمندہ تعبیر ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس لئے وہ یورپ اور امریکہ جاکر اپنے ساتھ نسلی، مسلکی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ظلم و ذیادتی کی کہانی گڑھ کے پناہ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ لیکن عدنان سمیع کے سوا کسی پاکستانی نے بھارت جاکر سیاسی پناہ مانگی ہو۔ یہ بات ہم نے کبھی نہیں سنی۔تقسیم ہند کے 73سالوں میں اگر ایک شخص پاکستان چھوڑ کر بھارتی شہریت کا متمنی ہوتا ہے تو اس کے لئے قانون میں ترمیم کرنے کی بھلاکیا ضرورت تھی۔ عدنان سمیع کا وزن جب تین سو پاونڈ تھا تو اس کا خرچہ پاکستان نے اٹھایا اب تک پچاس پونڈ کا لاغر گلوکار کہیں بھی کھپ سکتا ہے۔بھارت جانے کی خواہش مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو ہوسکتی ہے۔ جس کے پس منظر میں تاج محل سمیت مغلیہ دور کی عظیم عمارتوں کو دیکھنا، ممبئی، آگرہ، ڈیرہ دھون، شملہ،اوردہلی کی یاترا کا شوق کارفرما ہوسکتا ہے یا پھر دپیکا پڈیکون، کرینہ کپور، قطرینہ کیف، شاہ رخ خان، دلیپ کمار اور سلمان خان سے ملنے کی خواہش بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن مستقل طور پر بھارت میں رہنے کو کسی پاکستانی، بنگالی یا افغانی کو شوق اس لئے نہیں ہوسکتا کہ ہمارے لوگ گوشت کھانے کے رسیا ہوتے ہیں اور بھارت میں گوشت کا نام لینا بھی پاپ سمجھا جاتا ہے۔بندہ اپنی پالی پوسی گائے بھی حلال کرے تو اس کے پورے خاندان کو حلال کیا جاتا ہے۔ کسی غیر ملکی شہری کو پناہ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت اسے رہنے کو مکان بھی فراہم کرے گی۔ تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولت بھی مہیا کرے گی۔جبکہ خود بھارت میں پچاس کروڑ سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ممبی کو بھارت کا خوبصورت اور متمول شہر کہا جاتا ہے جبکہ ممبی میں پندرہ لاکھ افراد چھت میسر نہ ہونے کی وجہ سے کھلے آسمان تلے سڑکوں
کے کنارے رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔اس صورتحال میں کوئی دیوانہ یا مخبوط الحواس شخص ہی ہوگا جو مودی سے پناہ کی درخواست کرے۔ جہاں تک مودی سے پناہ مانگنے کا تعلق ہے۔بات دل کو لگتی ہے کیونکہ ہم جس طرح اپنی ہر دعا میں شیطان کے شرسے پناہ مانگتے ہیں اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگ مودی کے شر سے پناہ مانگتے ہیں۔شاید یہی بات کسی نے مودی کے کان میں ڈالی ہو۔ اور انہوں نے بات کو کوئی اور رنگ دے کر سیاسی پناہ سے تعبیر کیا ہو۔چائے بیچنے والوں کو وزارت عظمیٰ کے تخت پر بٹھائیں گے تو وہ یہی گل تو کھلائے گا۔کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم رزق حلال کمانے کے کسی پیشے کی تحقیر کر رہے ہیں۔ بندے کو اپنے پیشے سے ہی منسلک رہنا چاہے۔ بندر کے ہاتھ میں چھری تھمائیں گے تو وہ اسے دوسروں کی پیٹھ میں گھونپ دے گا یا پھر اپنا ہی گلہ کاٹے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔