چھابڑی ٹیکس کا قانون

……….محمد شریف شکیب……..

وفاقی حکومت نے چھابڑی فروشوں کے کام کو باضابطہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔جس کا مقصد چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بتایا گیا ہے۔ نئے ضابطے کے تحت چھابڑی فروشوں کے کاروبار کو بھی لائسنس سے مشروط کیاگیاہے۔ مسودہ قانون کے مطابقچھابڑی لگانے کے لیے 5 سال کا لائسنس لینا ہو گا، 500 روپے ماہانہ فیس بھی دینا ہوگی، یہ لائسنس کسی اور کے نام منتقل بھی نہیں ہو سکے گا۔سڑکوں پر گھوم پھیر کر سامان بیچنے کی اجازت نہیں ہوگی۔بلدیاتی ادارے چھابڑی فروش کا علاقہ تبدیل کرنے کے مجاذ ہوں گے۔احکامات کی عدم تعمیل پر سامان ضبط کیا جائے گا تاہم نقل مکانی پر رضامندی کی صورت میں بلدیاتی عملہ سامان اور نقصان ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ کسی ٹھوس وجہ کے بغیر اشیاء ضبط کرنے پر متعلقہ اہلکار کو 20 ہزار جرمانہ ہو گا، چھابڑی فروش کی اشیاء ضبط کرنا قابل ضمانت جرم ہوگا۔نیا مسودہ قانون ابتدائی طور پر وفاقی دارالحکومت کے ریڑھی بانوں پر آزمانے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ تجربہ کامیاب ہونے کی صورت میں اس کا دائرہ صوبوں تک بڑھایاجاسکتا ہے۔اس صورتحال پر پروین شاکر کا ایک مشہور مصرعہ یاد آیا۔ کہتی ہیں کہ ”اس شرط پر کھیلوں گی پیا،پیار کی بازی،، جیتوں تو تجھے پاوں، ہاروں تو پیا تیری“نئے مسودہ قانون کا تجربہ اسلام آباد میں کس حد تک کامیاب ہوگا۔اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم اپنے شہر پشاور میں اس کی دو سو فیصد کامیابی کی قبل از وقت ہی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ یہاں چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے زیادہ تر ریڑھی اور چھابڑی فروش ہیں۔ کوئی پکوڑے تل رہا ہے تو کوئی آلو پراٹھے بیچ رہا ہے۔ کوئی سبزی کی ریڑھی سجائے گلی کوچوں میں شور مچاتا پھیر رہا ہے تو کوئی بھوسی ٹکڑے اور ردی کا سامان ریڑھی پر سجائے آوازیں لگا رہا ہے۔ کوئی پھل فروخت کر رہا ہے تو کوئی گڑ، شیمپو، صابن کے ٹکڑے، زنگ آلود برتن، جرابیں، دستانے، لنڈے کے کپڑے، چھوٹے موٹے اوزار اور نمک کے تھیلے ٹھیلے پر سجائے اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کمانے کی سعی کررہا ہے۔ یہ لوگ صبح سویرے گھروں سے نکلتے ہیں۔ گرمی، سردی، ساون اور جھاڑوں میں بھی دن بھر سڑکیں ناپ ناپ کر شام کو دو چار سو روپے کماکر گھروں کو جاتے ہیں۔پانچ سو روپے ماہانہ فیس اور لائسنس لینے کی شرط لگا کرحکومت نے صرف اپنے وارے کی بات کی ہے۔ غریبوں کے خون پسینے کی کمائی چھین کر ان کے کاروبار کو تحفظ دینے اور باضابطہ بنانے کی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔بظاہرپیار کی یہ بازی تو سراسر حکومت کی جیت اور چھابڑی فروشوں کی ہار نظر آرہی ہے۔ قانون بنانے والوں نے اس میں چھابڑی فروشوں کا کونسا مفاد پوشیدہ رکھا ہے یہ واضح کرنے میں ان کا وضع کردہ قانون بھی خاموش ہے۔ فٹ پاتھوں پر مسواک، چند درجن پھل، کنگھی، دھاگے، سوئیاں اور چھوٹا موٹا سامان سجا کر بیٹھے والے، ریڑھی بان اور چھابڑی فروش وہ لوگ ہیں جن کو روزگار کا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔ان پر ٹیکس اور لائسنس فیس لگانا اس کاروبار کو فروغ دینے کا نہیں بلکہ ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے دلبرداشتہ لوگ بھیک مانگنے کے بجائے اگر اپنا خون پسینہ بہاکر گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لئے محنت مزدوری کرتے ہیں تو حکومت اور معاشرے کی طرف سے ان کی بھر پورحوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔حکومت کی معاشی ٹیم کے ارکان کچھ زیادہ دور کی کوڑیاں لانے لگے ہیں۔ان کا زور ہی غریبوں پر چلتا ہے۔ کبھی فرصت نکال کر وہ بڑے جاگیر داروں پر زرعی ٹیکس لگانے، شوگر مافیا کو ٹیکس نیٹ میں لانے، کاروبار کی آڑ میں کروڑوں اربوں روپے کا قرضہ لے کر معاف کرانے والوں کی خبر بھی لیں۔پرائیویٹ کلینک، میڈیکل لیبارٹریز سجائے لوگوں کا خون چوسنے والوں سے بھی ان کی روزانہ آمدنی کا کچھ حصہ بطور ٹیکس وصول کرنا بنتا ہے۔ اگر حکومت میڈیکل مافیا سے مناسب ٹیکس کی وصولی کا کوئی لائحہ عمل وضع کرے تو انہیں ریڑھی بانوں سے لائسنس فیس اورپانچ سو روپے ماہانہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔