داد بیداد…..خو ش نصیب

……….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ……..

ٹیلی وژن سکرین اور سو شل میڈیا آنے سے پہلے جو لو گ حکومت کر تے تھے خوش نصیب تھے فیلڈ مار شل ایوب خان 1960میں دو ہفتے منظر سے غا ئب رہے وہ جیپ اور گھوڑے کی پُشت پر سفر کر کے خنجراب گئے چینی حکام سے قراقرم ہائی وے کی تعمیر کا ابتدائی خا کہ تیار کرنے پر گفتگو کی پھر خاموشی سے راولپنڈی آگئے دو ہفتوں میں کسی کو پتہ نہ چلا کہ امریکیوں کا اتحادی چینیوں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے اس کے مقا بلے میں ہمارے ہاں 2020ء میں فیڈ رل بورڈ آف ریو ینیو نا می گمنام سر کا ری دفتر کا گمنام چیر مین شبر زیدی دفتر سے چھٹی لیتا ہے تو ایک گھنٹہ گزر نے سے پہلے سو شل میڈیا پر اسکی خبر آجا تی ہے دو گھنٹے بعد سارے ٹی وی چینلوں پر اس کا تذکرہ شروع ہو تا ہے جنرل یحییٰ کے زما نے میں سوشل میڈیا کی آمد ہو تی تو اقلیم اختر رانی کے تذکرے حریم شاہ اور صندل خٹک کے تذکروں سے بڑھ کر ہو تے وہ لوگ بلا شبہ خوش نصیب تھے کہ ان کے کر توت کم از کم دو سا لوں تک پو شیدہ رہے آپ ٹویٹر اور فیس بک کو ہزار بار مطعون کریں مگر یہ بات ماننی پڑے گی کہ شیطان کے ان ہتھیا روں نے ہمارے بڑے بڑے شیطانوں کو لگا م دیا ہے چند سال پہلے تک اخبار اور ریڈیو کو تاریخ کے حوالے کی حیثیت حا صل نہیں تھی اب ذرائع ابلاغ کو ایک الگ درجے میں ڈال کر حوالہ ما نا گیا ہے مستقبل میں مورخ فیس بک اور ٹویٹر کو بھی حوالے کے طور پر پیش کرے گا سکندر اعظم اور راجہ پورس کی جنگ 326قبل از مسیح کا وا قعہ ہے تاریخ دا نوں کی نئی بحث یہ ہے کہ اس جنگ میں راجہ پورس کو فتح حا صل ہوئی تھی مگر سکندر اعظم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہوں نے تاریخ میں اپنے آپ کو فاتح قرار دیا یہ بھی لکھوا یا کہ راجہ پورس کے زخمی ہاتھیوں نے خود اپنی فوج کو روند ڈالا اس وجہ سے اردو میں بے وفائی کرنے والے دوستوں اور عزیزوں کو پورس کے ہاتھی کہا جا تا ہے آج کا حکمران اگر 50سال پہلے حکومت میں ہوتا تو اس کو کتنی سہو لت ہوتی اُس کی کسی پرانی تقریر کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہ ہو تا اُس کی پوری زندگی پر دہ افضا میں ہوتی رقیبوں کے ہاتھوں میں اس کی کسی کمزوری کا آڈیواور ویڈیو ثبوت نہ ہو تا وہ حکمران کتنے خوش نصیب تھے جو آئی ایم ایف کو 100گا لیاں دینے کے بعد پھر آئی ایم ایف کے دست ِ زر پر ست پر بعیت کر تے تھے مگر اُن پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا تھا اُن کی یہ بھی خوش نصیبی تھی کہ وہ قرض لینے وا لوں پر ہزاروں بار لعنت بھیجنے کے بعد خود قرض لیتے تھے مگر کسی مخا لف کو ان کے کردار پر شک کرنے کی ہمت نہیں ہو تی تھی غلام محمد جب گورنر جنرل تھے تو ان کے پاس دو انگریزی اور دو اردو اخبارات آتے تھے رات 10بجے سے پہلے دفتر کا عملہ ان اخبارات کے الگ ایڈیشن تیا ر کرواتا تھا جو خصو صی طور پر گورنر جنرل کو بھیجے جاتے ان کا عملہ پڑھ کر سنا تا تو وہ بیحد خوش ہو تے تھے ان کی دور میں ٹیلی وژن سکرین ہوتا اور سو شل میڈیا کی نعمت میسر ہو تی تو گورنر جنرل کو ڈمی اخبارات دکھا کر دھو کہ دینا ممکن نہ ہو تا دنیا کی تاریخ میں بے شمار حکمرانوں نے رنگا رنگ زندگی گزاری لیکن ان کی زندگی کے پو شیدہ گوشے پو شیدہ ہی رہے اُس زما نے میں خفیہ کیمرے نہیں تھے قلم کیمرہ بھی نہیں ہوتا تھا ٹی وی سکرین نہیں تھا سو شل میڈیا کی وبا نہیں تھی ہمارے دور میں لیڈی ڈیا نا اور پرنس چارلس خفیہ کیمروں اور پا پا رازی فوٹو گرافروں سے تنگ آگئے دونوں میں جدائی کے بعد بھی فوٹو اور خبر کی تلا ش میں پھر نے والی بلا وں نے لیڈی ڈیا نا کا پیچھا نہیں چھو ڑا آخر کار اپنے دوست ڈوڈی الفائد کے ہمراہ پیرس کے سفر میں حا دثے کا شکار ہو کر دنیا سے چل بسی اُس وقت بھی پا پا رازی فوٹو گرافروں کی ٹیم ان کا پیچھا کر رہی تھی نئی بحث یہ ہے کہ ٹی وی سکرین اور سوشل میڈیا رحمت ہے یا زحمت ہے دانشوروں کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ یہ رحمت اور نعمت ہے حکمرانوں، جا گیر داروں اور بااثر لو گوں کا کچا چٹھا عوام کے سامنے رکھ دیتا ہے اور عوام کو پس پر دہ حقائق سے با خبر کر تا ہے بادشاہتوں میں بھی بادشاہوں اور شہزادوں کو بے لگا م ہونے نہیں دیتا جمہوری حکومتوں میں ”جمہور کے ابلیسوں“ کی کر تو توں سے ووٹروں اور پارٹی کار کنوں کو با خبر رکھتا ہے دا نشوروں کا دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ دور حا ضر کی مصیبتوں میں سب سے بڑی مصیبت ہے اس مصیبت نے شو بز کے شعبے سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کو بھی سیکنڈلوں میں ملوث کیا سیا ست کے شعبے میں عوام کے مقبول رہنما وں کو بھی نہیں بخشا کھیلوں کے شعبے میں نام پیدا کرنے والی اہم شخصیتوں کو بھی بد نا م کیا الغرض کسی کی نجی زندگی کو ”نجی“ رہنے نہیں دیا پرائیویسی کا ستیا نا س کر کے رکھ دیا اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ 50سال پہلے گزر نے والے حکمران بھی خوش قسمت تھے اُس دور میں فلم، ریڈیو، میوزک اور کھیلوں میں نام پیدا کرنے والے لوگ بھی خوش نصیب تھے اُن کی نجی زندگی کیمروں کی نظر میں نہیں آسکتی تھی اُن کی نجی زندگی ”ویڈیو“ نامی بلا سے محفوظ تھی آپ چشم تصور سے دیکھیں مغل اعظم کے زمانے میں سوشل میڈیا ہوتا تو انار کلی جہانگیر کی ملکہ ہو تی اور نو ر جہاں کا نام بھی نہ ہو تا اورنگ زیب عالمگیر کے ہا تھوں نہ اس کا باپ قید ہوتا نہ اُس کے بھائی قتل ہوتے نہ ان کے ہاتھ بھتیجوں کے خون سے رنگین ہوتے وہ لو گ خوش نصیب تھے جو حکمرانی کے مزے لیتے ہوئے ہر کام کر سکتے تھے جو ان کے جی میں آتا تھا وہ بلا جھجک کر گزر تے تھے 2020ء میں سوشل میڈیا نے ٹرمپ سے لیکر مو دی تک سب کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔