باہمت اور باصلاحیت نوجواں ثنا اللہ

………تحریر:حسین احمد فرحت کورو دروش!

غالباً دو سال پہلے جب وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب جو اس وقت وزیر اعظم نہیں بنے تھے، نے دروش چترال کا دورہ کیا تھا تو اس وقت جب وہ تقریر ختم کرکے کھانا کھانے کے بعد اپنے ہیلی کاپٹر کی طرف رواں دواں ہوئے تو ایک دبلا پتلا معذور لڑکا ہاتھ میں ایک کاغذ تھامے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے روکتے ہوئے اپنا تعارف کرایا اور پھر اپنے جیسے معذور افراد کے حقوق کی باتین شروع کیا کہ چترال میں معذور افراد کے لیے نا کوئی سرکاری سکول ہے اور نا کوئی کالج اور نا کوئی ہسپتال،وہ اپنی انگلیوں پر یہ سب کچھ گنواتا جا رہا تھا، اس پر خان صاحب نے اپنے سیکرٹری کو بھلایا اور اس کے ہاتھ میں موجود درخواست کو لیکر اس کو کندھے سے لگایا اور اس سے کچھ باتیں کرکے ہاتھ ہلاتا ہوا روانہ ہوا۔ تو اسی وقت مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس بندے میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں اور اس میں کچھ خاص کر دکھانے کا جذبہ موجود ہے اور یہ کچھ کر سکتا ہے۔
اگر دل میں کچھ خاص کرنے کا جذبہ ہو، زندگی کا مقصد دوسروں کی مدد کرنا ہو اور معاشرے میں موجود اپنے جیسے نادار اور بے سہارا انسانوں کا سہارا بننے کا جنوں ہو تو اپنے وجود میں موجود معذوری بھی آپ کے سامنے روکاوٹ بننے کی بجائے آپکو مزید حوصلہ بخشتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جو مختلف معذوریوں کی وجہ سے زندگی سے بیزار ہمت ہار کے خود کو اس کائنات پر بوجھ سمجھ رہے ہیں۔ ایسے افراد کو اپنے ارد گرد نظریں دوڑانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کسی ایسے باہمت انسان سے متاثر ہو کر دوبارہ اپنے آپ میں حوصلہ پیدا کرکے نئے سرے سے نا صرف اپنے وجود کے لیے جیئے بلکہ وہ معاشرے میں موجود دوسرے افراد کا بھی سہارا بنیں۔
میں نے ایک ایسے ہی باہمت اور باصلاحیت انسان کو دیکھا ہے بلکہ کئی عرصے سے اس کا مشاہدہ بھی کرتا آرہا ہوں کہ وہ باوجود خود معذور ہونے کے اپنی معذوری کو روکاوٹ نہیں جانا اور اپنی ذات سے بالاتر ہو کر معاشرے کے دوسرے بے سہارا افراد کا سہارا بنا ہوا ہے، ان کے کے لیے ایک آس بنا ہوا ہے، چاہے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہو یا پھر عیدین ہوں یہ ان افراد کے پاس فرداً فرداً جاتا ہے اور اپنی بساط کے مطابق انکی مدد کرتا ہے۔ یعنی سماجی خدمات سر انجام دے رہا ہے وہ بھی ان افراد کیلے جن کا وجود دنیا کی رنگینیوں کو دیکھنے اور چکھنے سے قاصر ہیں۔ اس کے علاوہ اس مرد آہن کا کرکٹ کے ساتھ بچپن سے ہی جنوں کا شوق رہا ہے اس نے کبھی اپنے اس شوق کو پورا کرنے میں اپنی معذوری کو رکاوٹ نہیں سمجھا اور نا ہی شرم محسوس کیا بلکہ دروش چترال کے مختلف کرکٹ گراونڈز پر کھیلتے ہوئے صوبائی سطح کے معذور افراد کے ٹورنامنٹز میں بھی حصہ لیا ہے اور اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے کامیابیاں بھی سمیٹا ہے۔ حال ہی میں ڈپٹی کمشنر چترال نوید احمد صاحب نے بھی اس کو میڈل اور شیلڈز سے نوازا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چند دن پہلے چترال میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں کلر آف چترال نامی این جی او کی طرف سے فخر چترال ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
اس باہمت نوجواں کا نام ثنا اللہ ہے اور اس کا تعلق دروش کے علاقے شاہنگار سے ہے۔ یقینا یہ ہمارے جیسے بندوں کے لیے ایک مثالی کردار ہے کہ جس نے اپنے وجود میں موجود معذوری کو معذوری اور اپنی کمزوری نہیں سمجھا بلکہ اپنے آپ کو معاشرے کی خدمت کے لیے وقف کیا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اگر دل میں تڑپ اور خدمت خلق کا جذبہ ہو تو بیماری اور معذوری ہیچ ہوتی ہے اور بندہ اپنی ذات سے بیخبر دوسروں کے دکھ درد کا سہارا بن جاتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ رب کریم ہمیں بھی انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین۔یقینا ثنا اللہ جیسے افراد ہمارے فخر ہیں اور فخر چترال ایوارڈ کے حقدار ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔