آؤ اللہ سے صلح کر لیں

……تحریر:تقدیرہ خان…..

بہلول مجذوب ؒ شہر سے آرہا تھا شاہی محل کے قریب سے گزرا تو خلیفہ ہارون الرشید کی بہلول پر نظر پڑگئی۔ خلیفہ نے پوچھا اے بہلول کہاں سے آرہے ہو۔ بہلول نے کہا شہر گیا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ شہر والوں اور اللہ میں صلح کروا دوں۔
صلح ہوگئی؟ خلیفہ نے پوچھا۔ بہلول نے آہ بھری اور کہا کاش ہوجاتی مگر نہ ہوسکی۔ اللہ تو صلح کے لیے تیار ہے مگر شہر والے نہیں مانتے۔ میں جس کے پاس گیا اسے مصروف پایا۔ تاجر، دکاندار، صنعت کار، سرکاری اہلکار اور عام لوگ سب مصروف ہیں۔ کوئی منافع خوری میں مصرو ف ہے تو کوئی کم تول رہا ہے۔کوئی گھٹیا مال اصل اور بڑھیا بتا کر بیچ رہا ہے۔ ہر سو افراتفری کا ماحول ہے۔ عام لوگ بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کسی نہ کسی برائی میں مصروف ہیں۔ کوئی بددیانتی کر رہا ہے، کوئی جھوٹ بول رہا ہے غیبت کر رہا۔ حرص وہوس والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ہر کوئی دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے میں مصرو ف ہے۔ کسی کو اللہ کے حکم کا خیال ہی نہیں۔ میں نے سب کوسمجھایا مگر کسی نے میری بات نہ مانی۔
میں نے کہا اللہ تمہاری خطائیں معاف کرنے پر راضی ہے۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ہر کام اُس کے حکم کے مطابق کرو تو تمہیں دُگنا فائدہ ہو گا۔اس میں دنیا کا آرام وسکون بھی ہے، عزت اور خوشحالی بھی ہے، باہمی اتحاد و اتفاق بھی ہے اور آخرت میں جنت کے بھی مزے ہیں۔
اپنے مال سے کچھ حصہ زکوٰۃ، خیرات اور صدقے میں دے دو تو غربت وافلاس دورہو جائے، بھوکا روٹی کھائے گا تو تمہیں دعائیں دیگا۔ کچھ مال دیکر قیدیوں کی گردنیں چھڑوا دو، غلاموں کو آزاد کرو اور مریضوں کے لیے شفا خانے بنوا دو۔ یہ سب تمہارے ہی بہن بھائی ہیں۔ تمہاری طرح انسان اور آدم ؑو حواؓ کی اولادہیں۔ اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نواز ہے تم اس کی مخلوق پر تھوڑا سا خرچ کرو دو تو تمہارا ما ل کم نہ ہوگا۔
اے خلیفہ:۔ میں جہاں گیا، جس سے بات کی اُس نے مصروفیت کا بہانہ بنایا اور منہ پھیر لیا۔ میں نے عام لوگوں سے بات کی اورکہا گھر کے اندر کا ماحول ٹھیک کر دو، بیوی بچوں اور ماں باپ سے پیار کرو، سچ بولو، محنت سے رزق حلال پر توجہ دو، گھر کے اندر عدل کرو تو باہر عدل کا سماں پید ا ہوگا۔ راہ چلتوں کو سلام کرو، بوڑھوں اور بیماروں کا بوجھ اٹھا لو۔ پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرو او ر لوگوں کیساتھ اخلاق سے برتاؤ کرو۔مگر میری کسی نے نہ مانی۔ سب بولے یہ کوئی نئی باتیں نہیں۔ ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ جاؤ ہمیں تنگ نہ کرو۔ پھر کیا ہوا،خلفیہ ہارون الرشید نے پوچھا؟ کچھ نہیں ہوا۔ لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ میں اللہ کے سامنے شرمندہ ہوااو رگردن جھکا کر واپس آگیا۔
اللہ ناراض تو نہیں ہوا۔ ہارون نے پوچھا۔ نہیں وہ ناراض نہیں ہوا۔ وہ تو میری بات سے بہت خوش ہوا کہ میں اُس کی مخلوق کے پاس گیاتھا۔ وہ تو ہر وقت صلح کرنے کو تیار ہے مگر لوگ ہی نہیں مانتے۔
ہارون الرشید نے اپنی راہ لی اور بہلول اپنی راہ چل دیا۔ کچھ عرصہ بعد خلفیہ ہارون اور بہلول مجذوب ؒ کی پھر ملاقات ہوگئی۔ خلیفہ نے پوچھا اے بہلول کدھر سے آرہے ہو۔ قبرستان گیا تھا، ادھر سے ہی آرہا ہوں بہلول نے کہا۔قبرستان کیوں گئے تھے ہارون نے پوچھا؟ میں چاہتا تھا کہ اللہ اور قبرستان والوں میں صلح کروا دوں۔ کیا صلح ہوگئی ہے ہارون نے سول کیا۔ نہیں ہوئی۔ اے خلیفہ قبرستان والے مجھے دیکھ کر خوش ہوئے اور آہ و زاری کرنے لگے۔ وہ صلح کے لیے تیار ہیں مگر اللہ نہیں مان رہا۔ وہ کہتا ہے ہے کہ وقت گزر گیا ہے۔ اب صلح نامہ نہیں بلکہ انہیں اعمال نامہ دونگا۔ جو جس نے کمایا وہ اسے مل جائے گا۔ قبرستان والے پریشان ہیں اور سخت مایوس ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم نے وقت ضائع کر دیا۔ بیکار کاموں میں پڑے رہے اور خالی ہاتھ آگئے۔ ہمارا مال و دولت، اولاد، عزیز واقارب اور دوست یا ر سب بے وفا نکلے۔ وہ ہماری طرح فضول کاموں میں مصرف ہیں۔کوئی ہماری بخشش کے لیے دعا ہی نہیں کرتا۔ ہم دعاؤں کے محتاج ہیں مگر دنیا والوں کو ہماری محتاجی کا احساس ہی نہیں۔ ہارون نے کہا بہلول مجھے کوئی نصیحت کرو۔
بہلول زاروقطار رونے لگا کہا اے خلفیہ میں تجھے کیا کہوں۔ میں خود پریشان ہوں۔ پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ خلیفہ نے وجہ پوچھی تو بہلول نے کہا۔ اے خلیفہ میں کل بازار سے گزر رہا تھا۔بھیڑ بہت تھی۔ میرا پاؤں ایک مسافر کے پاؤں پر آگیا۔ درد سے اُس کی چیخ نکل گئی اور وہ بھیڑ میں کھو گیا۔میں نے اسے تلاش کیا کہ معافی مانگ لوں مگر وہ نہ مل سکا۔ مل جاتا تو کچھ خدمت کرتا تو وہ راضی ہو جاتا مگر نہ ملا۔ اب معاملہ اللہ کے پاس ہے مگر مسئلہ مخلوق کا ہے۔ اب میں بندے اور ربّ کامجرم ہوں۔ اللہ تو معاف کردیگا۔ مگربندے کا پتہ نہیں۔ کاش وہ بھی مجھے معاف کر دے۔
خلیفہ ہارون نے کہا۔ اے بہلول مجھے پیغام مل گیا ہے۔ تو ایک بندے کے دکھ پر رو رہا ہے میرے ذمے تو ہزاروں میل پر پھیلی سلطنت میں بسنے والے کروڑوں بندگان خدا کے معاملات ہیں۔
اے بہلول میں حاکم وقت ہوں اور میری حکمرانی میں پلنے والی ہر مخلوق کا ذمہ مجھ پر ہے۔ اے بہلول دنیا کی حکمرانی اللہ کی حکمرانی کا پر تو ہے۔ جس طرح اللہ ساری مخلوق کا خیال رکھتا ہے۔ویسے ہی زمین پر حاکمیت کرنے والا شخص اپنے دائر ہ حکمرانی میں ہر چیز کا نگہبان اور محافظ ہے۔ اے بہلول میں خلوص نیت سے مخلوق کی خدمت کرتاہوں مگر ان گنت معاملات ایسے ہیں جو میری دسترس سے باہر ہیں۔
رسول اللہ ﷺکے بعد خلفائے راشدین کا دو ر سب سے بہتر تھا۔ دنیا کا کوئی حکمران ابو بکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ جیسی بصیر ت نہیں رکھتا۔کوئی عثمان بن عفان ؓ جیسا سخی اور حلیم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی علی بن ابو طالب ؓ جیسا بہادر، بردبار اور صاحب علم ہوسکتا ہے۔
اے خلیفہ تو نے سچ کہا۔ اگر تو اُن جیسا نہیں تو اُن جیسی صفات پیدا کرنے کی کوشش کر۔ اگر تیری نیت صاف اور عمل پاکیز ہ ہے تو میری کوتاہیاں اور لغرشیں اللہ معاف کردیگا۔ جوتیری دسترس سے باہر ہے وہ اللہ کی دسترس میں ہے۔اُس کا حساب تجھ سے نہیں لیا جائیگا۔ جس طرح تو مخلوق کا محافظ اورمدد گار ہے ایسے ہی مخلوق پر فرض ہے کہ وہ تیر ی معاون و مددگار بن کر رہے۔
ابے بہلو مخلوق میری مدد کیسے کر سکتی ہے۔ہارون نے پوچھا۔ وہ قانون شکنی نہ کرے اور تیراور تیرے عمال کا محاسبہ کرے۔ اسے خلفیہ اگر مخلوق انسانی غیر ذمہ دار، قانون شکن، عدل سے عاری اور اپنے فرائض سے غافل ہوگی تو تیرا اُن پر کوئی ذمہ نہیں۔ دین اسلام میں صرف فرائض ہیں حقوق نہیں۔ ہرمسلمان اپنا فرض اد ا کرے دے تو کسی کی حق تلفی نہیں ہوسکتی۔ فرض کے معاملے میں حکمران اور رعایا میں کوئی فرق نہیں۔
اے بہلو ل تو نے میری مشکل آسان کر دی۔ ہارون الرشید نے بہلول کے ہاتھ چومے اور اپنی راہ چل دیا۔ بہلول کو گزرے صدیاں گزر گئیں مگر اس کی دانش آج بھی زندہ ہے۔ کاش حکمران اور عوام اپنے اپنے فرائض پر توجہ دیں اور ملک پاکستان جنت کا نمونہ بن جائے۔ کاش ہمیں حکمرانوں اور اُن کے مصاحبوں کا محاسبہ کرنے کی جرأت ہو۔ کاش ہم اپنے آپ کو بدل لیں تو معاشرہ اور ریاست خود بخود بدل جائے۔
کاش ہم فرقے اور برادری کے نام پر ووٹ کی توہین نہ کریں اور اپنی عزت کروانے کا عمل شروع کر دیں۔ کاش ہم اپنی پہچان کر لیں اور ربّ کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں۔
میرے دوستو آؤ اللہ سے صلح کر لیں اور دنیا و آخرت کے معاملات درست کریں۔ اس سے پہلے کہ ہمارا وقت پورا ہو جائے اور اعمال نامے کی گھڑی آپہنچے۔ کیا کوئی تاجر، صنعت کار، وزیر، مشیر، ڈاکٹر، طبیب، حکیم، مالدار، عیار، مکار، سیاسی شعبدہ باز اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ قائم دائم اور جرائم کی دنیا میں تکبر و رعونت کی کرسی پر براجمان شیطانی چالوں کے بھروسے پر اپنا اقتدار اور جھوٹا وقار قائم رکھ سکے گا۔
اگر ایسا نہیں تو پھردیر کس بات کی ہے۔ آؤ لوگوں کامال انہیں واپس کر دو۔ کارٹل اور مافیا کارکن بننے سے انکار کر دو او ر عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر حرام مال کے انبار لگانے سے باز آجاؤ ورنہ تھوہر کی غذا، کھولتا ہوا گرم پانی، سجین کا عذات اور پھر نہ ختم ہونے والی زندگی میں جہنم کا عذا ب۔ذرا تصور تو کر و کہ تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ تمہاری اولادوں، بُرے اور بدچلن دوستوں، حرام کی کمائی سے عیش وعشرت کرنیوالی عورتوں کا کیا حشر ہونے والا ہے۔یہ دور کی بات نہیں۔
بدخشاں، کاہل اور ہرات سے لیکر بحیرہ عرب اور خلیج بنگال کے ساحلو ں تک مغلیہ دور کے مضبوط قلعوں، بارہ دریوں، حویلییوں، محلوں اور سراؤں کے آثار آج بھی ہیں مگر کوئی مغل شہزادہ اس دھرتی پر نہیں۔ شالا مار باغ اور لاہور کے قلعے کا ریکارڈ کسی پٹواری کے پاس نہیں اور نہ ہی کوئی مغل ان جائیدادوں کاحقدار ہے۔ اسی لاہور میں جگہ جگہ بلند عمارتیں اور کچھ عالیشان محل ہیں اور جاتی عمرا میں بھی محلات کا سلسلہ ہے۔بحریہ ٹاؤن میں بھی ایک بم پروف بلاول ہاؤس ہے جنہیں تعمیر ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ اسی طرح اسلام آباد، کراچی اور پشاور میں بھی مستقبل کے آثار قدیمہ کے کچھ نمونے ہیں۔ ان کے مکین مصروف ہیں اللہ سے صلح کا کسی کے پاس وقت نہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔