داد بیداد…..کشمیر اور یورپی یونین

…..ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی …..

خبر آگئی ہے کہ یو رپی یو نین نے کشمیر کو انسا نی حقوق کے ایجنڈے سے نکا ل دیاہے یو رپی یو نین کی کونسل ہر سال انسانی حقوق کے لئے اپنی تر جیحا ت میں کشمیر کو جگہ دیتی تھی تا ہم 2020 کے لئے جو تر جیحات مقرر کی گئی ہیں ان تر جیحا ت سے کشمیر کو نکال دیا گیا ہے یو رپ کے 27ممبر ملکوں کی انتہائی موثر اور معتبر تنظیم نے آناً فاناً یہ فیصلہ نہیں کیا اس فیصلے کے پیچھے بھارتی حکومت کی دوسالہ محنت کا ہاتھ ہے بھارتی سفارت کاروں نے 2018ء میں پوری دنیا کے اندر ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دینا تھا اگست 2019ء میں بھارت نے کشمیر کی خصو صی حیثیت اور متنا زعہ پوزیشن کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے مقبوضہ کو یونین کے صوبے کی حیثیت دیدی تو دنیا کے کسی بھی ملک نے اس پر احتجاج نہیں کیا اکیلے پا کستان نے اس کی مذمت کر کے صدائے احتجاج بلند کیا عرب ملکوں سے ہماری تو قعات تھیں کسی بھی عرب ملک کے کا نوں پر جوں تک نہیں رینگی کیونکہ بھارتی سفارت کاروں نے پہلے ہی فضا کو اپنے حق میں سازگار بنا یا تھا اب سوال یہ ہے کہ کشمیر اگر یو رپی یونین کے ایجنڈے میں سر فہرست ہو تا تو کیا فرق پڑتا کشمیر کو ایجنڈے سے خارج کرنے پر ہمیں یا کشمیر یوں کو کیا فرق پڑے گا؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں مگر پیچیدہ ضرور ہے جواب یہ ہے کہ بین لاقوامی تعلقات کی عمارت سے اگرا یک اینٹ نکا لی جائے تو پوری عمارت زمین بوس ہو جا تی ہے یورپی یو نین کے ممبر مما لک اقوام متحدہ کی مختلف کمیٹیوں اور کونسلوں میں بے پنا ہ اثرو رسوخ رکھتے ہیں فرانس کو سلا متی کونسل میں مستقل ممبر کی حیثیت سے ویٹو پاور حا صل ہے کشمیر کا متازعہ ہو نا ہماری خا رجہ پا لیسی میں بنیا دی حیثیت رکھتا ہے ہماری دفاعی تیا ریوں کا محور بھی کشمیر ہے ہمارا مو قف یہ ہے کہ بھارت نے آئین کے دو دفعات کو ختم کر کے کشمیر کو صوبے کی حیثیت دے کر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کی ہے اس نے لائن آف کنٹرول کو بین لاقوامی سرحد بنا دیا ہے جو کسی بھی صورت ہمیں قبول نہیں یورپی یو نین جیسے بااثر اور معتبر تنظیم نے کشمیر کے اندر انسا نی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی کو نظر انداز کر کے بھارتی موقف کی تائید کی ہے اور یہاں دشمن کے مقا بلے میں ہمیں پسپائی کا منہ دیکھنا پڑا ہے جن لو گوں کو سفا رت کاری اور دفاعی تجزیہ نگاری سے مناسبت اور تعلق رہا ہو وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قومیں کسی طرح اپنا مو قف دنیا کے سامنے رکھتی ہیں؟ اور قومیں کسی طرح عالمی اداروں میں اپنے مقاصد حا صل کرتی ہیں؟ چین، بھارت اور امریکہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ کوئی قدم اٹھا نے سے پہلے اپنے سفارت خا نوں کو متحرک کرتی ہیں بیشک حکومت کا کوئی بھی قدم اس کا داخلی مسئلہ ہو تاہے لیکن داخلی مسئلے پر کسی ردّ عمل کو دبا نے اور ہضم کرنے کے لئے بین لاقوامی حما یت کی ضرورت ہو تی ہے حکومتوں کو اس بات کا خیال رکھنا پڑ تا ہے کہ اندرونی محا ذ پر کسی قانون سازی یا قانون کی منسوخی کا بین لاقوامی ردّعل کیا ہو گا مختلف مما لک اس پر کسی قسم کے تبصرے کرینگے؟ دفاعی اور سفارتی تجزیہ نگار اس کوکس پہلو سے دیکھینگے مختلف ملکوں کے بڑے اخبارات میں اس کی خبریں کس زاویے سے شائع ہونگی؟ اس لئے وہ کوئی قدم اٹھا نے سے پہلے دنیا کے اہم ملکوں کو اپنا ہم نوا بنا تے ہیں بھارتی سفارت کاروں نے 2018ء کی پہلی سہ ما ہی سے بلجئیم کے دارلحکومت برسلز میں یورپی یو نین کے عہد یداروں کو اپنے اعتماد میں لینا شروع کیا تھا اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصو صی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد ممبر ملکوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز نہیں اُٹھا ئی 5ماہ بعد کشمیر کو اپنی تر جیحا ت سے نکا ل دیا گویا یورپی یونین کی نظر میں کشمیر کے اندر انسا نی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم ہوگئی ہیں یو رپی یونین کو کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے 7مہینوں سے جاری کر فیو بھی نظر نہیں آیا تعلیمی اداروں کی بندش نظر نہیں آئی مذہبی عبادت گاہوں کے ارد گرد بھارتی فوج کا کڑا پہرہ بھی نظر نہیں آیا کہ کشمیر ی بھارتی مظا لم کے خلاف بھر پور احتجاج کررہے ہیں بھارت نے کشمیر ی قیادت کو جیلوں میں ڈالا ہوا ہے کشمیر ی خواتین اور بچوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر قتل کیا جا رہا ہے ہمارے دوست پروفیسر شمس النظر فاطمی کہتے ہیں کہ پا کستان کی طرف مظلوم کشمیریوں کے حق میں نکا لے جانے والے جلوس بھی یورپی یونین کو نظر نہیں آئے یورپی یونین کو یہ بھی نظر نہیں آیا کہ اگست کی چلچلاتی دھوپ میں ہم نے نماز جمعہ کے بعد باہر نکل کر 10منٹ کھڑے رہنے کا انوکھا ریکارڈ قائم کیا کشمیر یوں کی حمایت میں ہم نے ایک منٹ کی خا مو شی اختیار کی ورنہ ہم ایک لمحہ بھی خا موش نہیں رہ سکتے ہمارے وزیر اعظم نے 27ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے تاریخی خطاب میں کشمیر کا مسئلہ اجا گر کیا مگر یورپی یونین کو اس کی خبر نہیں ہوئی پریس کلب میں جب گرما گرم بحث ہوتی ہے تو سینئر صحا فی یہ کہہ کر ہمارا منہ بند کر دیتے ہیں کہ یورپی یونین سے شکوہ کیوں کرتے ہو اسلامی مما لک کی تنظیم او آئی سی نے کشمیری عوام کی حمایت میں بیاں نہیں دیا، دولت مشترکہ نے کشمیر میں انسا نی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لب کشائی نہیں کی عرب لیگ نے کشمیر یوں کے حق میں ایک لفظ نہیں بو لا خلیج تعاون کونسل نے کشمیر یوں کا ساتھ نہیں دیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری سفارت کاری نا کام ہوئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی سفارت کاری مہم ہم سے بہتر تھی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔