ٹرمپ دورہ، بھارت نے کیاپایا؟

…..محمد شریف شکیب…..

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورہ بھارت کے دوران نریندر مودی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے پاکستان اور وزیراعظم عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ کہنے لگے کہ عمران خان کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات ہیں اور پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لئے شاندار کام کر رہا ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے اپنی طرف سے ثالثی کی پیش کش کا پھر اعادہ کیا۔ دوسری جانب بھارتی سماج وادی پارٹی نے بھی امریکی صدر کے دورے کو بھارت کے لئے مایوس کن قرار دیا ہے۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری رام شنکر راج بھر نے الزام لگایا ہے کہ ٹرمپ کے استقبال کے نام پر سو کروڑ روپے لٹانا ملکی مفاد کے منافی ہے۔ٹرمپ کا دورہ امریکی نقطہ نظر سے تو بہت کامیاب تھا کیونکہ ٹرمپ نے اپنی مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی کم کرادی۔ ڈیری،زراعت اور دوائیوں کو ہندوستانی بازار میں لانچ کرنے کے لئے راستہ ہموارکیا اور تین ارب ڈالر کے ہتھیارامریکہ سے خریدنے پر نریندر مودی کو مجبور کیا۔ہمارے دفتر خارجہ نے بھارتی سرزمین پر امریکی صدر کی طرف سے پاکستان کی تعریفوں کو اپنی اہم سفارتی کامیابی قرار دیا ہے۔ بھارت ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جس کے ساتھ تجارتی، سیاسی اور سفارتی تعلقات کا فروغ امریکہ سمیت تمام ترقیافتہ ممالک کی اولین ترجیح رہی ہے۔ بھارت کی اسی تجارتی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ اور طاقتور ممالک دہلی کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔اقوام متحدہ میں بھارت کو مستقل ممبرشپ دینے کے لئے بھی امریکہ اور یورپی ممالک نے کافی جدوجہد کی تاہم چین کی طرف سے ویٹو کا حق استعمال کرنے کی وجہ سے بھارت اقوام متحدہ کا مستقل ممبر نہ بن سکا۔ امریکہ سمیت ساری دنیا جانتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ اور طاقت کے زور پر اس ناجائز قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے اس نے اپنی ساڑھے سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خود بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کیا تھا لیکن عالمی ادارہ سات عشرے گذرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام رہا ہے۔امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس کو بھی بخوبی علم ہے کہ بھارت نے کشمیر یوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جمہوری حق دیدیا تو بھارت سات ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ اور ان کی مارکیٹ خراب ہوجائے گی۔بھارت کی طرف سے پاکستان پر کشمیر میں دراندازی، دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی مالی مدد کرنے کے الزامات کے باوجود صدر ٹرمپ کا پاکستانی کوششوں کا اعتراف بلاشبہ مودی حکومت کی سفارتی پسپائی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بخوبی معلوم ہے کہ بھارت اگر امریکی برآمدات کے لئے پرکشش منڈی ہے تو جنوبی ایشیاء میں پاکستان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے جتنی قربانیاں دی ہیں اس کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا ملک پیش نہیں کرسکتا۔ موجودہ حکومت کو بلاشبہ یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی قربانیوں کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر موثر طریقے سے اجاگر کیا۔افغانستان میں امن کی بحالی پاکستان کے تعاون اور سفارتی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں۔امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں پاکستان کے کردار کا صدر ٹرمپ بارہا اعتراف کرچکے ہیں۔امریکی صدر کے دورے کے دوران بھارت کے مختلف شہروں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے،ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے گھروں اور املاک کو آگ لگادی، اور مساجد کی بے حرمتی کی۔ ان فسادات میں بیس افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ بھارت بھر میں شہریت کے متنازعہ قانون کے خلاف بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے ہنگاموں پر قابو پانے کے لئے فوج بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حیران کن طور پربھارت نے ان ہنگاموں کا اب تک پاکستان پر کوئی الزام نہیں لگایا اور نہ ہی پاکستان کا ان سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن امریکی صدر کی آمد پر بدامنی کے واقعات نے دنیا بھر میں بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی کہنا پڑا کہ بھارت کو اپنے اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لئے خود اقدامات کرنے چاہیئں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔