دادبیداد….چکدرہ چترال ایکسپریس وے

……ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی …..

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے چکدرہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود چکدرہ چترال ایکسپریس وے یا موٹر وے کا افتتاح کرینگے چکدرہ چترال ایکسپریس وے ایک سہا نا خواب ہے اور اس خواب کی تعبیر بھی ممکنات میں شامل ہے پہلا مر حلہ اس شاہراہ کو وفاق کی تحویل میں دینا تھا وفاقی وزیر مراد سعید نے رکن اسمبلی مو لانا عبد الاکبر چترالی کو ایوان کے اندر یقین دہانی کرائی ہے صو بائی وزیر اعلیٰ محمود خان رکن اسمبلی عنایت اللہ خان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ وفاق میں چکدرہ چترال ایکسپریس وے کا مقدمہ جیت کر دکھا ئینگے یہ ایک شاہراہ یا سڑک نہیں بلکہ ملا کنڈ کی تاریخ کا ایک باب ہے اس باب کو سنہرا باب نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جنگ ہمارے اباؤاجداد نے بھی لڑی مگر فتح دشمن کے حصے میں آئی تھی یہ 1885ء کا واقعہ ہے پشتو کا مشہور ٹپہ اس کی شہا دت دیتا ہے جواب تک سینہ بہ سینہ آرہا ہے ؎
چرتہ لندن او چرتہ چترال
بے غیر تی شوہ
فرنگیاں چترال تہ زینہ
لندن اورچترال کے درمیاں کتنا لمبا فاصلہ ہے یہ بے غیرتی کی بات ہے کہ فرنگی لشکری چترال کی طرف جاتے ہوئے ہمارے گاؤں سے گزر رہے ہیں! جندول کے حکمران عمراخان کو پختونوں کا نپو لین کہا جا تاہے انہوں نے فرنگیوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیاتھا فرنگی افغا نستان کے امیر کا راستہ روکنے کے لئے چترال پر قبضہ کر کے مضبوط مورچہ قائم کرنا چاہتے تھے عمرا خان نے وائسرائے ہند کو چیلینچ کیاتھا کہ تم چترال پر قبضہ کر کے دکھاؤ چنا نچہ وائسرائے ہند نے مشرق اور مغرب کی طرف سے فو جوں کے دو الگ الگ دستے روانہ کئے گلگت سے کرنل کیلی کی قیا دت میں بر طانوی فوج کا دستہ درہ شندور کے راستے چترال میں داخل ہوا مغرب سے بریگیڈئیر کٹا گر کی قیادت میں دوسرا دستہ نو شہرہ سے روانہ ہوا یہ دستہ درہ لواری کو عبور کر کے چترال وارد ہوا ملاکنڈ کے پختونوں نے بریگیڈئیر کٹا گر کے خلاف دادِ شجا عت دی مگر بھاری توپ خانے کا مقابلہ ریوالور، تھری ناٹ تھری اور ڈنڈوں، چھریوں کے ذریعے ممکن نہیں تھا ”مقابلہ تو دل ِ نا تواں نے خوب کیا“ چکدرہ فورٹ کے اوپر پہاڑی پر چرچل پیکٹ اسی جنگ کی برطانوی یا دگار ہے ونٹس چرچل دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں برطانیہ کے وزیر اعظم بنے 1940سے 1945تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہے 1895ء میں ان کی ڈیوٹی چکدرہ کی پہاڑی پر واقع پیکٹ میں تھی چکدرہ چترال روڈ ملا کنڈ کی تاریخ کا احا طہ کرتی ہے اور یہ شاہراہ ملا کنڈ کے 5اضلاع چترال بالا، چترال زیریں،دیر بالا،دیر زیریں اور ملا کنڈ کو ملا تی ہے ایک طرف سوات سے اور دوسری طرف صوابی، مردان سے جوڑتی ہے پھر پشاور، نو شہرہ اور اسلام آباد سے ملا تی یہی وجہ ہے کہ چکدرہ، چترال شاہراہ کو چائنا پا کستان اکنا مک کوریڈور (سی پیک) میں متبادل شاہراہ کے طور پر شامل کیا گیا ہے تا ہم تر جیحا ت کے مر حلے میں بُز کشی کا کھیل کھیلا جا تا ہے یہ چنگیز خان کے زمانے کا کھیل ہے افغانستان، تاجکستان،گلگت بلتستان اور چترال میں اب تک کھیلا جاتاہے کھیل کا دستور یہ ہے کہ ایک دنبے کو میدان میں زندہ یا مر دہ رکھا جا تاہے گھڑ سواروں کا دستہ اس پر جھپٹ پڑ تا ہے ان میں جو گھڑ سوار طاقتور ہو گا اور جس کا گھوڑا تیز دوڑے گا وہ دنبے کو زمین سے اُٹھا کر اپنے ہاتھوں سے مضبوط پکڑے گا اور گھوڑے کو سرپٹ دورڑا تے ہوئے بڑے میدان کے چکر لگائے گا 7چکروں میں دوسرے گھڑ سوار تھک کر ہار مانینگے تو دُنبہ اسی کا ہو جائے گا ایسا بھی ہو تا ہے کہ 3چکروں کے بعد کوئی دوسرا کھلا ڑی دنبہ چھین لیتا ہے مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ملا کنڈ، دیر اورچترال کے منتخب نما ئیندوں کی یہ کو شش ہے کہ بُز کشی کے اس کھیل میں اپنے گھوڑے کو سر پٹ دوڑائیں اور دُنبہ کسی اور کو چھین کر لے جا نے نہ دیں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے پہلے ایسے منصوبے خفیہ اداروں کی رپورٹوں، فیلڈ افیسروں کی سفارشات اور عوامی نمائیندوں کے مطا لبات پر دیئے جاتے تھے جنرل ضیاء الحق نے جو نیا طریقہ متعارف کرایا وہ یہ تھا کہ بڑے منصو بے عوام کی طرف بدامنی اور قانون شکنی کے جواب میں دئیے جائینگے اُس کے بعد حکومتیں عوامی احتجاج، قانون شکنی اور بد امنی کا انتظار کرتی ہیں اس وجہ سے پُر امن علا قوں کے عوام اپنے جا ئز حق سے بھی محروم رہتے ہیں ملا کنڈ کے 5اضلاع کے 30لاکھ عوام کو بجا طور پر خدشہ ہے کہ سی پیک کا متبادل روٹ ہونے کے باوجود بُز کشی میں یہ منصو بہ کوئی طاقتور گھڑ سوار چھین کر لے جائے گا اس لئے عوامی نمائندوں نے اپنی کوششیں تیز کردی ہے اچھی بات یہ ہے کہ ملا کنڈ، دیر پائین اور دیر بالا میں حکمران جماعت پا کستان تحریک انصاف کے ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں آئے ہیں وہ ٹریژی بینچوں پر بیٹھتے ہیں اگر انہوں نے حکومت پر زور دیا تو بڑے سے بڑا منصو بہ لینا مشکل نہیں ہو گا پارٹی مفا دات سے با لا تر ہو کر علاقے کی تر قی اور عوام کی خوشحا لی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے مشہور کہاوت ہے کہ ترقی سڑک سے ہو کر آتی ہے مو جودہ حکومت ملا کنڈ،دیر اور چترال کے پُر فضا مقامات کو سیا حوں کے لئے کھولنا چاہتی ہے اس کے لئے بھی شاہراہ کی ضرورت ہے چکدرہ سے چترال تک 210کلو میٹر ایکسپریس وے بن گئی تو 6گھنٹوں کا سفر 3گھنٹوں میں طے ہو جائے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔