وقت کے فرعون کی شکست

……تحریر:فیض العزیز فیض……

امریکااورافغان طالبان میں امن معاہدہ آج 29 فروری کو قطرمیں ہوگا۔ افغان طالبان کیساتھ امن معاہدے پردستخط امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کریں گے۔ تقریب میں مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سمیت 50 ملکوں کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔

واضح رہے کہ انیس سال کی خونریزی، تباہی، ہزاروں افغانوں کی قربانی، لاکھوں کے دربدر ہونے، ارب ہا ڈالروں کے خرچے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لاکھوں بموں کے استعمال اور طالبان کی طرف سے سینکڑوں خودکش دھماکوں کے بعد آج امریکہ اور طالبان ڈیل پر متفق ہو رہے ہیں۔

اس ڈیل سے بخوبی دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں بری طرح شکست ہوئی اور اب وہ اس ملک سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
امریکہ آج سے 19سال قبل طاقت کے نشے میں اس جنگ میں کودی تھیں، لیکن میرے ملک کے وہ طبقے اس کڑوے سچ کو تسلیم نہیں کر پارہے، ان کے صرف خواب نہیں ٹوٹے بلکہ ان کا ایمان پاش پاش ہوا ہے۔ خواب تو یہ تھا کہ امریکہ جب افغانستان میں قدم جما لے گا تو چونکہ بھارت اُس کے ساتھ مسلسل پارٹنر کی حیثیت سے وہاں براجمان ہے تو یوں پاکستان کی حیثیت ایک ایسے کمزور اور گھرے ہوئے ملک کی ہوجائے گی جس کو جب چاہے بے بس کردیا جائے گا۔ امریکہ چونکہ طالبان اور القاعدہ کے نام پر افغانستان میں داخل ہوا تھا، اس لیے اس کی جیت پاکستان کے ہر سیکولر اور لبرل کے حوصلے بلند کردے گی اور دہشت گردی، شدت پسندی کے نام پر جس کا چاہے ناطقہ بند کیا جاسکے گا۔ خلافت، اسلامی انقلاب اور ایسے دیگر نعرے شدت پسندی کی سہولت کاری کے نام پر دبا دیے جائیں گے۔ بھارتی تہذیب، کلچر، فلم اور تجارت اس پورے خطے پر راج کرے گی، اور ایک گنگا جمنی تہذیب میں ہر وہ آواز دب کر رہ جائے گی جو 72 سال پہلے اسلام کے نام پر ایک علیحدہ ملک کی بنیاد بنی تھی۔ ایسے لاتعداد خواب تھے جو پرویزمشرف کی روشن خیال سیکولر حکومت کی چھتری تلے دیکھے گئے، اور پھر امریکہ کی افغانستان میں آمد کو مسیحا تصور کیا گیا۔ ایسے تمام خواب اس ایک شکست نے چکنا چور کردیے۔ دوسرا معاملہ خواب کا نہیں ایمان کا ہے۔ پاکستان کا یہ طبقہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بت کو اپنا معبودِ حقیقی مانتا ہے۔ افغانستان میں پہلی مداخلت کے وقت ان کو تسلی تھی کہ دراصل دو معبودوں یعنی روسی اور امریکی ٹیکنالوجی میں لڑائی تھی اور مضبوط دیوتا جیت گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے یہ شکست کھانے والی ٹیکنالوجی کے دیوتا کا قوی ہیکل مجسمہ لینن گراڈ میں گرایا گیا، پاکستان کے تمام نظریاتی کمیونسٹ این جی اوز اور انسانی حقوق کے لبادے میں اپنا ”دین“ بدل کر امریکہ کی ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ ان لوگوں کے لیے اب افغانستان میں امریکہ کی شکست بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایک تو یہ کہ اب کوئی ٹیکنالوجی شکست سے بچی نہیں جسے سجدہ کیا جائے، اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اس بت کو پاش پاش کرنے والے نہتے اور بے سروسامان لوگ تھے جن کو ٹیکنالوجی چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ اس لیے یہ اب دن رات ایک ہی خواب دیکھتے ہیں کہ کاش امریکہ اپنی طاقت کے زعم میں کچھ دن اور یہاں رک جائے، یا کم از کم اپنے جانشین کے طور پر کٹھ پتلی افغان حکومت کو بھارت اور دیگر خیر خواہ ممالک کے ذریعے چھوڑ جائے۔ لیکن ان کی یہ خواہش پوری ہونے کو ہے اور نہ ہی امریکہ کی یہ آخری خواہش کہ افغانستان میں امن معاہدے پر طالبان کے ساتھ دستخط امریکہ کے نہیں افغان حکومت کے ہوں تاکہ وہ دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا نہ ہو، کہ اتنی بڑی طاقت نے چند ہزار ”صاحبانِ توکل“ طالبان سے شکست کھائی ہے۔ لیکن ایسا ہونا اب طالبان نے ناممکن بنادیا ہے، اب یا تو امریکہ چپ چاپ چلا جائے گا اور افغان حکومت کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ جائے گا، اور دوسری صورت میں اسے افغان طالبان سے معاہدہ کرنا پڑے گا۔ یہ دونوں صورتیں میرے ملک کے اُن طبقات کے لیے عذاب ہیں جن کا ہر دن امریکہ اور مغرب کی ٹیکنالوجی کی پرستش میں گزرتا ہے
بات اصل میں وہیں اکر رک جاتی ہے کہ بادشاہت صرف اس ذات کے لئے ہے جس کی اس کائنات میں شاہنشات ہے.

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔