دھڑکنوں کی زبان…..خوابوں کا گلستان

……محمد جاوید حیات……

اب کی بار گلسمبر خان نے گڑ گڑا کر دعا کرتا رہا تھا ”یا االلہ میرے اوپر بھی رحمتوں کی بارش کردے۔میرے گھر کو بھی اپنی رحمتوں کی آماجگاہ بنا دے۔بیٹی رحمت ہے مجھے اس رحمت سے محروم نہ کردے“ گلسمبر خان بڑے محنتی زمیندار ہوا کرتے تھے۔گاؤں میں چند ایکڑ زمین تھی اس پر بڑی جان فشانی سے محنت کرتے۔گھر کے اخراجات پورے ہوتے۔گلسمبر بڑے شریف النفس اور ہمدرد ہو ا کرتے تھے اس وجہ سے وہ گاؤں میں خوش اخلاق مشہورتھے۔اس کی زندگی میں اولاد کی کمی نہیں تھی البتہ اس کی کوئی بیٹی نہیں تھی اس کی آرزو تھی کہ اس کی ایک بیٹی ہو جائے۔اللہ نے یہ آرزو بھی پوری کردی۔۔اس کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔اس کی بیٹی ہو گئی۔۔اولاد اللہ کی نعمت ہے مگر اللہ سے صرف اولاد نہیں مانگنا چاہیے۔۔ ساتھ ساتھ دعا کرنی چاہیے یا اللہ اولاد ہو تو نیک صالح ہو۔شاید گلسمبر نے صرف بیٹی مانگی تھی۔۔مگرگلسمبر کا گھرانا روایتی تھا اسلامی اقدار کا پاس لحاظ تھا۔وہ سختی سے صوم و صلوات کے پابند تھے۔بچوں کو بچپن سے قرآن پڑھایا جاتا۔ان کو نماز کی تلقین کی جاتی۔ اس لئے ا س کی بیوی نے کہا۔ ”یا اللہ اس بچی کو نیک صالح کر“اور اپنے شوہرکو بھی یوں تاکید کی کہ نومولود کی پاکیزہ زندگی کی آرزو کر۔۔خالی بیٹی نہ مانگ ۔۔اس کی مونا چاند تھی بڑی ناز سے پرورش پاتی گئی۔باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی۔ ماں کی زندگی تھی۔بھائیوں کے لیے ایک پھول ایک خوشبو تھی۔سکول میں داخل کیا گیا۔سکول سے آکردارالعلوم جاتی۔قرآن پڑھتی۔ گھر میں اس کی وجہ سے رونق تھی۔ایک چہک،ایک بلبل کی آواز،ایک نغمہ،ایک مسکراہٹ،ایک خواب۔۔مونا کی ہر ادا پہ سب جان نچھاور کرتے۔اس کا ناز اُٹھایا جاتا اس کو خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی۔اس کا بچپن گزرا تو تربیت کی وہ کلاسیں شروع ہوئی جوزندگی کی مشکل تریں کلاسیں تھیں۔وہ کھیلونوں کے دور سے گزر گئی۔کتابوں کاپیوں کی زندگی آگئی۔اس کے دوست احباب زیادہ ہوتے گئے۔اس کی سوسائٹی بنی۔سکول سے کالج پہنچی۔اس کے ساتھ بھانت بھانت کے ساتھی تھے مزاج الگ،نشست و برخواست،لباس پوشاک ویسے بھی کالج کے یونیفارم۔۔لیکن یہ سب بڑے بانکے تھے۔ایسی ایسی باتیں کرتیں کہ مونا کے رونگٹے کھڑے ہوتے کیونکہ مونا اپنے گھر میں ماں کی قیدی تھی۔۔جب اس کی پیدائش ہوئی تھی تو اس کے باپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اس سمے اس کی ماں نے کہا تھا۔۔بیٹی نعمت اپنی جگہ لیکن یہ ایک ”آزمائش“ بھی ہے اس کی تربیت کا بہت بڑا بوجھ۔۔اس کو وقت کی بے راہروی سے بچانے کی مہا جد وجہد۔ اس کی پل پل خبر گیری۔۔یہ کوئی آسان کام ہے کیا؟۔اللہ سے اس کی نیک صالح ہونے کی دعا کرو۔اس دن سے اس کے ابو بھی محتاط تھا۔۔اس کے گھر میں ماں بس ہدایات ہی دیتیں۔یہ ٹی وی کے سامنے ٹکو مت۔۔نماز کا وقت ہو رہا ہے جلدی کرو۔صبح آذان سے پہلے اٹھو۔باروچی خانے میں احتیاط سے برتن ادھر ادھر رکھو۔کوئی پیالی تمہارے ہاتھ سے گر نہ جائے۔اگر خدا نخواستہ دوپٹا سر سے سرک گیا تو قیامت آگئی۔کبھی جھوٹ مت بولنا۔نگاہیں نیچی رکھنا۔بدن سمیٹ سمیٹ کے رہنا۔۔کسی مرد کے سامنے آتی ہوئی خواہ وہ تمہارے ابو ہی کیوں نہ ہو اپنی چادر سنبھالنا۔آواز نیچی رکھنا۔۔کالج میں ساتھیوں کو دیکھ کر اس کو عجیب لگتا۔آہستہ آہستہ وہ کالج میں ”ملا“مشہور ہو گئی۔۔اس کو یہ نام اچھا لگتا۔ کیونکہ اس کو دین سے محبت تھی۔۔اس کے پاس سمارٹ فون نہیں تھا نہ کبھی اس نے اس کی خواہش کی تھی۔اس کے بھائی نے ڈپلومہ مکمل کرکے باہر ملک گئے۔۔ابو کے فون سے اس سے بات ہوتی۔بھائی مذاقاً کہتا۔۔گڑیا اب تو ایک عد د سمارٹ فون بھیجوں۔۔نیٹ کے زریعے پڑھائی میں مدد ملے گئی۔گڑیا انکار کرتی۔۔ایک دن اس کی میم نے بھری کلاس میں اس کو کھڑا کرکے پوچھا۔۔یہ جو تہذیب کی تعلیم آپ نے حاصل کی ہے کہاں سے کی ہے۔۔اس نے سر جھکا کے کہا۔۔یہ سبق ماں نے پڑھائی ہے۔مونا نے ایف سی میں جب ٹاپ کیا تو اس کے سارے ماڈرن ساتھیوں کے منہ پہ طمانچہ ہوا اس لئے کہ وہ سمارٹ فون اور نیٹ میں پڑھائی کا بہت چرچا کرتی تھیں۔اس کے بھائی کا خواب تھا کہ وہ ڈاکٹر بن جائے۔اس نے ٹسٹ پاس کیا۔۔میڈیکل کالج پہنچی لیکن اس چکا چوند میں بھی وہی ”ملا“۔اس کے ساتھیوں نے اپنی نسوانی تعارف کھو چکی تھیں۔۔کوئی سر ڈھانپتی نہ تھی۔۔ڈھنگ کا لباس پہنتی نہ تھی۔۔مخلوط ماحول میں کوئی حدود قیود نہ تھے۔مرد عورت۔۔بیٹا بیٹی۔۔بیٹی اللہ کی رحمت۔۔ماں کی باپ کو تنبیہ۔۔”بیٹی آزمائش ہے“۔اور پھر ماں باپ کی مونا کے لئے دعائیں۔۔وہ اپنی کلاس ٹاپ کرتی رہیں۔۔اساتذہ کی آنکھوں کا تارہ بنتی رہیں۔ادارہ اور ادارے سے باہر معاشرے کے لئے مثال بنتی رہیں۔سر سے دوپٹا نہ گرا۔۔آنکھوں سے حیا ء نہ مٹی،آواز اونچی نہ ہوئی۔بیباکی قریب نہ پٹکی۔غیرت متزلزل نہ ہوئی۔۔آخری سال تھا کہ ایک دن مونا آکر اپنی ماں سے لپٹ کر چیخ چیخ کر روئی اس لئے کہ اس کی کلا س میٹ نے اپنے کلاس فیلو کے ساتھ کورڈ میریج کر لی۔۔ والدین کی مرضی کے خلاف۔۔اس دن وہ خوب روئی۔۔ماں نے تسلی دی بیٹا!۔۔اللہ تیری آبرو کی حفاظت کرے۔۔ایسے لوگ معاشرے میں بہت ہیں۔۔اس نے ہچکی لیتی ہوئی کہا۔۔ماں وہ بیٹی تھی۔۔ماں باپ کی آبرو۔بھایؤں کی عزت۔۔والدین نے کتنی چاہتوں سے اس کو پالا پوسا تھا۔۔ماں وہ ”بیٹی“۔۔۔ اللہ کی رحمت۔۔۔دین محمدی ﷺکی ناموس۔۔۔بیٹا! حوصلہ رکھ۔۔ہر ایک کی عزت و آبرو کی حفاظت کی دعا کر۔۔۔مونا ڈاکٹر بن گئیں۔۔ایک دن ایسا آیا کہ اس کا دلہا آگیا۔۔اس نے پہلی دفعہ نگاہیں اٹھا کر اپنے سر تاج کی طرف دیکھا تو اس کی گھنیری داڑھی اس کو بہت اچھی لگی۔۔چہرے سے وجاہت ٹپکٹی تھی۔۔اس کا دلہا بھی کوئی معمولی ڈاکٹر نہیں تھا۔باہر سے پڑھ لکھ کر آیا تھا۔جو آج کے اس بے راہرو معاشرے کے ہر فرد کے لئے خواب ہے ۔۔لیکن خوابوں کے گلستان میں ان دو پھولوں کا ایسا اضافہ ہوا کہ گلشن انسانیت مہک اُٹھا۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔