دخترامت قیدی نمبر650

……فیض العزیز فیض……

جب عباسی خلیفہ منصور ایک رات طواف کررہا تھا کہ اچانک اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی ائی اے اللہ! میں تیری بارگاہ اقدس میں ظلم وزیادتی کے تجاوز‘ حق اور اہل حق کے درمیان حرص و طمع کے داخل ہوجانے کی شکایت کرتا ہوں“۔خلیفہ منصورسے مخاطب ہو کر کہنے لگے.
اے مسلمانوں کے امیر! میرا چین آنا جانا رہتا تھا‘ ایک مرتبہ جب میں وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں کے غیر مسلم بادشاہ کی قوتِ سماعت جواب دے گئی ہے اور وہ کانوں سے بہرہ ہوچکا ہے‘ اس دن بادشاہ نے بھری مجلس میں دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا‘ اہلِ مجلس اسے صبر کی تلقین کرنے لگے‘ تواس نے سر اٹھایا اور کہا: ”میرا رونا اس لئے نہیں کہ مجھ پر مصیبت آن پڑی ہے‘ بلکہ میں تو اس مظلوم کے لئے رورہا ہوں جو ظلم کی فریاد لے کر داد رسی کے لئے میرا دروازہ کھٹکھٹائے گا اور میں اس کی بات نہ سن سکوں گا“-

پھر بادشاہ نے اعلان کیا کہ آج کے بعد ملک میں مظلوم کی پہچان سرخ کپڑے (لباس) سے ہوگی‘تاکہ مظلوم کا یہ امتیازی لباس دیکھ کر میں اس کی مدد کرسکوں‘ پھر وہ ہاتھی پر سوار ہوکر نکل کھڑا ہوتا اور مظلوم کی مدد کرتا“۔ امیر المؤمنین! اس بادشاہ نے مشرک ہونے کے باوجود اپنی قوم کے ساتھ کس قدر ہمدردی کی اور ایک آپ ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھنے اور اہل بیت کے ایک فرد ہونے کے باوجود اپنی خواہش نفس کو مسلمان رعایا کی خیر خواہی پر قربان نہیں کرسکتے:
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا امریکہ سے واپس نہ آنا اور امریکی دہشت گردوں قاتلوں کا باعزت واپس امریکہ چلے جانا۔ یہ صرف امریکہ بہادر کی سپر پاور ہونے کی تصدیق ہی نہیں بلکہ پاکستان کو، اپنی خودمختاری اور اسلام سے بغاوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اگر ظلم سہتے سہتے ڈاکٹر عافیہ صدیقی جان کی بازی ہار گئی توہم پیغمبر آخرالزمانؐ کو کیا منہ دکھائیں گے۔کیابہت نہیں ہو چکا۔سودے میں ڈالرز بھی مل چکے ہیں زندگی کے 17 سال بھی عقوبت خانوں میں گزار چکی۔ ظلم ہر بربریت اور عصمت دری سہ چکی.ناکئے گئے گناہوں کی بھی سزا دی گئی۔کہتے ہیں کہ جو مظالم ان پر ڈھائے گئے ہیں۔وہ مار اگر ھاتھی کو بھی پڑتی تووہ بلبلا اٹھتے۔

وہ جو دہشت گرد تھے زمانے میں انکے ساتھ بھی صلح ہو چکی ہے۔حالانکہ میں مجرم تو نہیں تھی۔لیکن آپ نے ٹھرا دی۔تو کیا اب وقت نہیں آیا کہ جن کے ساتھ مراسم کی وجہ سے 86 سال کی قیدمیں ہوں۔وہ اگر پاک ہوگئے ہیں ان کے 5000 قیدی رہا ہوں گے تو پھر مجھے بھی رہائی ملنی چاہیئے۔

یہ وہ قیدی نمبر 650 کی آہ وبکا ہے جس کی داستانیں جب بھی میں پڑھتا ہوں تو اسکی سسکیاں مجھے سنائی دیتی ہیں۔
قابل صد احترام پرائم منسٹر صاحب آپ کے منشور میں یہ بات تھی کہ میں جب اقتدار میں آیا تو ضرور اس قوم کی بیٹی کی مدد کرونگا اس کو زنداں سے آزاد کرواونگا۔لیکن لگتا یوں ہے کہ آپ کو بھی اس کی یاد نہ رہی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔