لبرلزم سے برہنہ ازم کا سفر

…فیض العزیز فیض…

پچھلےسال ایک پندرہ سالہ لڑکی نے اپنے باپ کو محبوب کے ساتھ مل کر قتل کر دیا تھا ۔ پولیس تھانے میں جب لڑکی سے پوچھاگیا کہ تم نے اپنے باپ کو گولی کیوں ماری؟اور لاش کو اگ کیوں لگادی. تو اس کا جواب ایسا تھا کہ ہر ذی شعور کانپ جائے۔ لڑکی نے کہا کہ “اس کا باپ اسے اس کے بوائے فرینڈ سے نہیں ملنے دیتا تھا، اس لئے اس نے اپنے باپ کو تشدد کے بعدگولی مار دی۔”
یہ میرا جسم میری مرضی کے سلوگن والوں کےکرتوتوں کا نتیجہ ہے. اس قتل کا مقدمہ کس کیخلاف درج کیا جائے۔؟ پندرہ سال کی کمسن لڑکی کیخلاف یا اُسے اِس انتہائی اقدام کیلئے تیار کرنیوالے لبرلز کیخلاف، جنہوں نے اسے یہ سوچ دی کہ تمھارا جسم تمھاری مرضی ہے، اسے والد یا بھائی کی حفاظت میں نہیں رہنا چاہیئے۔ اس قتل پر  تمام لبرلز خاموش رہے، گویا سانپ سونگھ گیا تھا، یہ جن کا گھر اجڑا تھا، اس کا درد وہی محسوس کرسکتے ہیں۔ عورت مارچ میں لگائے جانیوالے نعرے نجانے اور کتنے گھروں میں بدامنی کی آگ لگائیں گے، جانے کتنی خواتین کو طلاقیں دلوا کر سڑکوں اور محفلوں کی “جان” بنائیں گے.
واضح رہے کہ یورپ میں بھی خواتین میرا جسم میری مرضی کی آوازیں لگاتی تھیں آج ان کا جسم پبلک پراپرٹی کے سوا کچھ نہیں ہے. یہ عورت کی آزادی نہیں در حقیقت یہ عورت تک پہنچنے کی آزادی کی تحریک ھے۔جسم ہمارا تمہارا ہوتا تو خود کشی حرام نہ ہوتی.یہاں کچھ بھی تو ہمارا تمہارا نہیں یہاں ہم اپنی مرضی سے پیدا ہوتے ہیں؟کیا ہمیں ماں باپ کے انتخاب کا اختیار ہے؟کیا ہم بہن بھائی خود منتخب کرتے ہیں؟کیا ہم پیدا ہونے کے لئے گھر، خاندان، شہر، ملک یہاں تک کہ مذہب کا بھی اختیار رکھتے ہیں؟کیا ہمیں اپنی شکل صورت، رنگ، جسامت،  کسی بھی قسم کا کوئی اختیار ہے؟کیا موت ہمارے اختیار میں ہے؟نہیں…… ہرگز نہیں!جسم تو کیا یہاں کچھ بھی ہمارا نہیں ہم تو اپنے بلڈ گروپ کے سامنے بھی بے بس ہیں.اور یہی اصل کام، اصل امتحان ہے’’اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘.نہ جسم میرا، نہ مرضی میری نہ آغاز مرے بس میں، نہ انجام تیرے بس میں. کیوں تماشہ بناتے ہواپنا…اا
ھاں معاشرے میں سارا قصور اورغلطیاں خواتیں کی ہی نہیں ہوتیں. ھم میں اچھے بلے دیندار لوگ تعلیم یافتہ لوگ دانستہ طور پرخواتیں کووہ حقوق بھی دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں جو ان کو قرآن نے دیئے ہیں. ھماری ان ہی کوتاہیوں کی وجہ سے مغربی دنیا کا ھمارےدستوراور تہذیب پر یلغار کا راستہ سہل بنا دیا ہے. ان کی عورت مارچ جیسی کسی بھی تحریک کا مینو فیسٹو آسانی سے ھمارے خاندانی نظام میں سرایت کرکےایک مظبوط سماجی سسٹم کو کھوکھلا کردیتی ہے. پھر ان کے روشن خیال کارندے جس طرح روڈوں پہ بینر اٹھائے شرم وحیا کا جنازہ نکالتے ہیں. اسے کاں آنکھیں کھول کرہوشیار رہنےکی ضرورت ہے. اوراپنی مردانگی پہ زعم کے بجائے ان ایشوز کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے. جس کی وجہ سے یہ طوفان بدتمیزی سر پہ آن کھڑی ہے.
اگر اس بے ہودگی کی لہر کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو اس کے ثمرات اور نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے۔ جس کا ہمارا معاشرہ متحمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس کی بنیاد اسلام کے نظریات پر رکھی گئی ہے۔ اس میں اسلامک ازم کے سوا کوئی ازم کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسلامک ازم میں ہی اقلیتوں اور غیر مسلموں کو حقوق ملتے ہیں،  مگر افسوس کہ اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کیا گیا اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جتنا دامن اسلام کا وسیع ہے، شائد ہی کسی دوسرے مذہب میں اتنی وسعت ہو۔ اس لئے اسلامی اقدار کی پامالی سے بہتر ہے، یہ لبرلز بھی اسلام کے آفاقی اصولوں اور اقدار میں اپنے لئے بھی پناہ ڈھونڈیں، بصورت دیگر ان کیلئے کم از کم پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں۔ انشاءاللہ
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔