عورت آزادی مارچ۔۔ چترال کی عورت کیا سوچتی ہے؟

……اعجاز احمد

“میرے بھائی ضرورت کے وقت اپنے کپڑے خود دھولیتے ہیں، میں جب اُن کو ایسا کرتے ہوئے دیکھتی ہوں تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ شاید میں اپنے ذمے کا کام اُن سے کروارہی ہوں”۔ یہ الفاظ اپر چترال سے تعلق رکھنے والی نصرت فاطمہ کے ہیں جو عالمی یوم نسواں کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔ نصرت سوشل بلاگ سائٹ، ٹویٹر استعمال کرنے والی چترال کی گنی چُنی خواتین میں شمار ہوتی ہیں اور وہ کسی بھی موضوع سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرنے سے نہیں گھبراتیں۔ نصرت نے مزید کہا کہ شرمندگی کا یہ احساس ہمیں ہمارا معاشرہ، ہماری روایات دلاتی ہیں۔ “میں نے یہ سب کچھ اپنی ماں سے سیکھاہے کہ اپنے کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کے مردوں کے کپڑے بھی میں نے ہی دھونے ہیں”۔ نصرت فاطمہ کا خیال ہے کہ یہ ذہنیت اب تبدیل ہونی چاہئے۔ گھر کا ماحول ایسا ہو کہ لڑکے بھی اپنے کام کریں۔ اُن کا خیال ہے کہ عورت مارچ جیسی سرگرمیوں سے خواتین کے مسائل کے حوالے سے آگہی ضرور پھیلی ہے لیکن تبدیلی آنے میں وقت لگے گا۔ نصرت نے عزم ظاہر کیا کہ وہ اپنی بیٹی (بیٹیوں) کیلئے ایسا ماحول نہیں بنانا چاہے گی۔

لوئر چترال سے تعلق رکھنے والے کریمہ جو ہیومن رائٹس کمیشنآف پاکستان کے ساتھ بطور پروگرام ایسوسی ایٹ کام کرتی ہیں نے کہا کہ ہمارے آئین کا آرٹیکل 38 ملک میں صنفی، نسلی، لسانی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کیلئے مساویانہ معاشی، سماجی بہبود کو یقینی بنانے پر زور دیتاہے۔ کریمہ خان نے بتایا کہ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق رواں سال صنفی مساوات کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے تین بدترین ممالک میں شامل رہا۔انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ دیگر اضلاع کی نسبت چترالی عورت کے حقوق زیادہ محفوظ ہیں، لیکن جو حقوق آئین کے تحت ہمیں حاصل ہیں وہ تمام حقوق ہمیں لینے چاہئے، کریمہ خان نے کہا کہ ملکی آئین کے تحت عورت کو دئیے گئے تمام حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے چترال میں بھی “عورت مارچ” منعقد ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مارچ گھریلو تشدد کے خلاف ہونا چاہئے ہمارے علاقے میں گھریلو تشدد عام ہے اور کوئی کیس منظر عام پر نہیں آتا کیونکہ تشدد برداشت نہ کرنے والی اور پولیس کو رپورٹ کرنے والی خاتون کو “شریف” نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارے علاقے میں خواتین خود کشیاں کرتی ہیں ان کی تحقیقات کیلئے مارچ ہونا چاہئے۔ ہمیں اُن چترالی بیٹیوں کیلئے مارچ کرنا چاہئے جن کی شادیاں ان کے باپ کی عمر والے بابوں کے ساتھ بعوض رقم کرادی جاتی ہیں، اُن لیڈی ہیلتھ ورکرز کیلئے مارچ ہونا چاہئے جنکی کی سروس کی توقیر نہیں کی جاتی، ان مقاصد کیلئے ہمیں چترال میں عورت مارچ ضرور کرنا چاہئے۔ کریمہ خان نے کہا کہ والدین اگر تمام بچوں کو یونیورسٹی نہ بھیج سکیں تو بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں، لڑکیوں کو اکیلے سفر سے منع کیا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے ہمارے معاشرے میں اکیلی عورت محفوظ نہیں ہے ہمیں اس کے خلاف مارچ کرنا چاہئے۔ کریمہ خان نے عورت مارچ کے مطالبات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ عورت مارچ عورت کیلئے معاشی حقوق مانگتاہے جو چترالی خواتین کی بھی ضرورت ہیں۔ چترال میں چند ہی شعبے ایسے ہیں جن میں خواتین کام کرسکتی ہیں باقی تمام مواقع خواتین کیلئے شجرہ ممنوعہ ہیں، کریمہ نے کہا گریجوایشن کے بعد چترالی لڑکی کو علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے کیونکہ وہ چترال میں کوئی کام کرے تو اسے پسند نہیں کیا جاتا یا اسے ایسے مواقع نہیں ملتے، اپنے معاشی حقوق کیلئے چترالی عورت کو بھی سڑکوں پر آنا چاہئے۔

آج یعنی آٹھ مارچ کو ہر سال کی طرح پاکستان سمیت پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہاہے۔ پاکستان میں عالمی یوم نسواں کے موقع پر ْعورت مارچ ٗ کے تحت خواتین کے حقوق کے بارے میں آگہی پھیلانے کی روایت گزشتہ دو سال سے چلی آرہی ہے۔ عورت مارچ کے موقع پر شرکاء کی جانب سے پلے کارڈ، بینر اٹھائے جاتے ہیں اور اُن میں مختلف قسم کے پیغامات درج ہوتے ہیں۔جن پر اعتراض بھی کیا جاتاہے۔ گزشتہ سال ایسے ہی ایک پلے کارڈ پر کھوار زبان میں “اپنے کپڑے خود دھولو” کا پیغام درج تھا جو سوشل میڈیا پر چترال سے تعلق رکھنے والے یا کھوار زبان بولنے والے صارفین کا موضوع بحث بن گیا۔

کھوار زبان میں درج پیغام کے ساتھ پلے کارڈ تھام کر مارچ میں شامل اُس نوجوان خاتون کی شناخت بہت کوششوں کے باوجود نہ کی جاسکی البتہ رواں سال کے مجوزہ عورت مارچ کے حوالے سے چترالی خواتین کا ردعمل جاننے کیلئے اس کا حوالہ ضرور دیا گیا۔لوئر چترال سے تعلق رکھنے والی تقدیرہ خان، جو حکمران جماعت پی ٹی آئی کی کارکن بھی ہیں نے وٹس ایپ کے ذریعے اپنا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ گھر میں بیٹا اور بیٹی میں فرق نا رکھیں، کسی بچے کو کسی قسم کا احساس برتری یا کمتری نہ دلائیں۔ تقدیرہ نے چترالی والدین سے التجا کرتے ہوئے کہ جسطرح بیٹوں کی شادی میں چھان بین اور دھیان سے کام لیا جاتاہے اس طرح بیٹیوں کی شادیوں پر بھی توجہ دینی چاہیئے، بیٹی جہاں بیاہی جاتی ہے وہاں کی تحقیق کرانا بہت ضروری ہے کہ اُس گھر میں بیٹی کی زندگی کیسے گزرے گی۔ اسے آسان نہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ چترالی ماں باپ نہایت آسانی سے اپنی بیٹیوں کو دیگر اضلاع میں بیاہنے پر راضی ہوتے ہیں، دلہے کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں کی جاتی، اصل نسل کا پتہ نہیں لگایا جاتا، پٹھان اور پنجاب سے وارد ہونے والے لوگوں پر اندھا یقین کرلیاجاتاہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔یہ بیٹیاں چترال کی عزت ہیں، اَن کو رسوا نہ کیا جائے۔ تقدیرہ خان نے کہا کہ چترالی خواتین اگرچہ کچھ سہولیات سے محروم ضرور ہیں مگر ملک کے دیگر شہروں کی خواتین کی نسبت عزت کی زندگی گزارتی ہیں۔ عورت مارچ کی ضرورت شاید شہر کی خواتین کو ہو لیکن چترال میں خواتین کے اکثر حقوق محفوظ ہیں۔ دیگر مسائل بھی آہستہ آہستہ حل ہوجائینگے۔

لوئیر چترال ہی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جو اس وقت ایک بین الاقومی میڈیا ہاؤس کے ساتھ وابستہ ہیں نے ایک بار شکایت کی کہ ان کے والدین ہمیشہ بیٹا بیٹی میں فرق کرتے تھے، ” میرے چھوٹے بھائی کو اس خوف سے کہ کہیں نظر نہ لگ جائے، ہمیشہ خیال رکھا جاتا تھا، اتنی توجہ کبھی میرے اوپر نہیں دی گئی”۔ یہ جملہ انہوں نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر درج کیا تھا۔ بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے اس تحریر کیلئے اُن سے ٹویٹر پر باربار پیغام ارسال کرنے کے باوجود رابطہ نہیں کیا جاسکا۔ اس لئے اُن کا نام درج نہیں کیا جارہا۔

 اپر چترال سے تعلق رکھنے والی محبوبہ، جو اس وقت اسکالرشپ پر یورپ میں میڈیکل کے ایک شعبے میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں نے پچھلے سال کے عورت مارچ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ خواتین کو عزت و احترام اور جائیداد میں حصہ دونوں چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا پچھلے سال وہ پاکستان میں تھی اور عورت مارچ میں شرکت کیلئے تیار ہوکر نکلی تو وہاں پر عورتوں کی جانب سے نامناسب روئیے دیکھ کر اپنا ارادہ تبدیل کرلیا ۔انہوں نے کہا عورتوں کو مرد حضرات سے برابری نہیں کرنی چاہئے۔ “ہم طبعی طورپر برابر نہیں ہیں” البتہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی یوم نسواں کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگہی پھیلانے کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چترال میں خواتین کے اکثر وراثتی حقوق پامال ہوتے ہیں، وہ بھی معاشرتی وجوہات کی وجہ سے۔  انہوں نے عورت مارچ کے بجائے خواتین لکھاریوں کو آگے آنے اور اپنے حقوق کے حوالے سے لکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنا جائز ہے تو یہ مردوں پر بھی لاگو ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا چترال میں یہ ذہنیت ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی کہ بچہ پیداہونے پر جو خوشی منائی جاتی ہے وہ بچی کی پیدائیش پر نہیں ہوتی۔

سوات کے ایک نجی بینک میں کام کرنے والی راشدہ کا تعلق بھی اپر چترال سے ہے اُن کا کہنا تھا کہ پچھلے سال عورت مارچ کے دوران “تان خشٹاران و تان زپان تان نگور(اپنے برتن اور کپڑے خود دھولو)” کا پیغام کوئی قابل اعتراض نہیں تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا سے اٹھائے گئے ایک پوسٹ کو وٹس ایپ کے ذریعے بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ نا تو خلیل الرحمٰن مردوں کا حقیقی نمائندہ ہے اور نا ماروی سرمد پاکستانی خواتین کی اصل رہنماء۔ راشدہ نے کہا کہ بھائیوں کے کپڑے دھونا، اُن کیلئے کھانا بنانا، یا برتن دھونا کوئی بُری بات نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اِن کاموں کو بیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل نہ کیا جائے۔ اگر بھائی فارغ بیٹھا ہے تو اپنے کپڑے دھولے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔

گزشتہ روز ایک قومی ٹی وی پروگرام میں عورت مارچ کے موضوع پر ایک گرماگرم بحث سے شروع ہونے والے تنازعات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور سوشل میڈیا پر ہر دوسرا پوسٹ یا تو عورت مارچ کے حق میں یا مخالفت میں موجود ہے۔ پروگرام میں معروف ٹی وی ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمٰن اور سوشل ایکٹویسٹ ماروی سرمد اپنے شدید ردعمل اور جذبات پر قابو نہ پانے کی بناپر تنقید کی زد میں ہیں۔

راشدہ نے مزید کہا کہ بیٹے کو وارث اور بیٹی کو پرایا ٹھہرانے کی ذہنیت تبدیل ہونے کیلئے وقت لے گی۔ تعلیم یافتہ لوگ تبدیلی کو قبول کرینگے اور جو لوگ سمجھنا ہی نہیں چاہتے اُن کو سمجھانے کی کوشش کرنا فضول ہے، عورت مارچ جیسی سرگرمیوں سے بھی اُن کو فرق نہیں پڑےگا۔

زاہدہ شاہ سنگین بھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والی چترال کی محترک خاتون ہیں آپ کا تعلق بھی لوئیر چترال اور حکمران جماعت پی ٹی آئی سے ہے۔ ڈبلیوایچ او کے ساتھ کام کرچکی ہیں، اور سیاست میں کافی حد تک فعال ہیں۔ اپنے علاقے میں خواتین کیلئے خصوصی اور کمیونٹی کیلئے عمومی طورپر محترک رہتی ہیں۔ زاہدہ کے مطابق وہ “تان زپان خشٹاران تان نگور” کے نغرے سے متفق نہیں ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ اسکی بجائے “آئیے دونوں ملکر کام کریں” کا نعرہ لگتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ زاہدہ شاہ نے کہا کہ عورت اگر گھر کے اندر بیٹھی ہے اور کوئی ملازمت نہیں کررہی تو یہ مطالبہ بنتا ہی نہیں ہے، البتہ اُن کا خیال تھا کہ نوکری کرنے والی خاتون سے پھر گھریلو کام کرانا بہرحال نامناسب ہے، ایسی صورت میں گھر کے مرد کو اُن کا ہاتھ بٹانا ہوگا۔ زاہدہ کا مزید کہنا تھا کہ مرد سے یہ توقع کرنا کہ گھر سے باہر پورا دن کام کرکے گھر آکر برتن بھی دھوئے اور اپنے کپڑے بھی، ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھر باہمی رفاقت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے چلتاہے۔

اس کے علاوہ ایسی دسیوں چترالی خواتین سے پوچھا گیا جو سوشل میڈیا استعمال کررہی ہیں،ان میں سے بیشتر نے عالمی یوم حقوق نسواں، عورت مارچ، اسکے پیغام، مقاصد سے اپنی عدم واقفیت کا اظہار کیا۔ ان میں سے پانچ خواتین کو یاد نہیں تھا کہ آخری بار انہوں نے کسی بھی موضوع پر ٹی وی ٹاک شو کب دیکھا تھا۔ لاہور میں مقیم ایک چترالی خاتون (جومقامی یونیورسٹی کی طالبہ ہیں) سے پوچھا کہ عورت مارچ پاکستان کے کونسے شہر میں منعقد ہوتا ہے تو لاعلم نکلی۔ پشاور کے ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانے والی اپر چترال کی عالیہ (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ اپنے بھائیوں کے گھریلو کام خوشی سے کرلیتی ہیں، اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کلچر میں خواتین گھریلو کام کرتی ہیں اور مرد گھر سے باہر کے مشکل کام سرانجام دیتے ہیں، لہٰذا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ عالیہ نے کہا کہ وہ اب بھی چترال جاتی ہیں تو گھریلو کام کرلیتی ہیں۔ عالیہ کے مطابق اُن کے والدین نے بچوں اور بچیوں میں کوئی فرق نہیں رکھا-

 فیس بُک پر عورت مارچ چترالی مرد صارفین کیلئےبھی پسندیدہ موضوع بحث رہا۔ چترال سے معروف وکیل جو فیس بک پر نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ کے نام موجود ہیں نے اپنے پروفائل پر میرا جسم میری مرضی کو کوئی قابل اعتراض جملہ نہیں ٹھہرایا، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا خواتین کو میرا جسم دوسروں کی مرضی لکھنا چاہئے تھا؟ مزید تفصیل کیلئے اُن سے رابطہ کوشش کے باوجود نہیں ہوسکا۔ بونی سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہنے والے خورشید عالم سے پوچھا گیا تو انہوں نے عورت مارچ کو بے حیائی پھیلانے کی کوشش قراردیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہماری خواتین کو بتادینا چاہئے کہ اُن کے کونسے حقوق پورے نہیں ہورہے۔ فیس بک میسنجر پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے خورشید کا مزید کہنا تھا کہ حقوق کی تحریک کی آڑ میں مغرب کی طرز پر آزادی کی خواہش کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ اپنا جسم اپنی مرضی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

فیس بُک کے ایک اور چترالی صارف عبدالعزیز نے عورت مارچ کو بیہودہ حرکت قرار دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایسے کونسے حقوق ہیں جو خواتین کو نہیں مل رہے اور وہ مارچ کے نتیجے میں مل جائیںگے؟ عبدالعزیز  نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے خاندان میں خواتین ڈاکٹر، لیکچررز اور طالبات اکیلی سفر کرتی ہیں انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مسئلہ صرف این جی اوز والیوں کو ہوتا ہے، وہی ہر چیز کی شکایت کررہی ہوتی ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔