کیا رائے دلیل کے بجائے گالی سے ہونا چاہئے؟

…..تحریر:ناصر علی شاہ….

آپ ایک ہاتھ میں پانچ کا سکہ لیجئے اور دوسرے میں پانچ ہزار کا نوٹ،دونوں کو ایک ساتھ گرا دیں اور نوٹ کیجئے آواز کس میں سے آئیگی۔ یقیناً سکہ,کیونکہ جن کی ویلیو زیادہ ہوتی ہے وہ بے جا شور نہیں کرتے،اپنے عقل کو استعمال کرتے ہوئے گفتگو دلیل سے شروع اور دلیل پہ ہی ختم کرنا چاہئے،مگر آج کل سوشل میڈیا میں دلیل سے بات کرنے کے بجائے خود کو ارسطو سمجھ کر دل دہلانے والے گالیاں نکالی جاتی ہے جو اس بات کی عکاس ہے کہ معاشرے میں سوچ بچار اور برداشت کی کمی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے۔
اکیسوین صدی سے گزرنے والے میرے محترم چھوٹے بڑے یہ ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ ہم پتھر کے زمانے کے پتھر دل لوگ ہیں اور کہتے ہیں میری زبان میری مرضی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓکے ساتھ تکلیفیں جھیلیں,الزامات لگے،کچرے ڈالے گئے مگر انہوں نے کسی کے ساتھ بدکلامی نہیں کی۔اصول تھے برداشت تھی اور سب سے بڑھ کر اخلاقیات تھی۔
ایک کافر عورت ہر روز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کچرا پھینک دیتی تھی مگر میرے نبی ؐنے ہمیشہ اس کے لئے دعا کی جب ایک دن کچرا نہیں پھینکی گئی, پوچھنے پر پتہ چلا وہ بیمار ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے اور اس عورت کی عیادت کی، ٹھیک ہوکر وہ خاتون مسلمان ہوگئی۔ بحیثیت مسلمان اور ایسے نبیؐ کے پیروکار،جس کی اخلاق کو اللہ تبارک وتعالی نے خلق عظیم قرار دیا ہے ہم اگر اپنے لہجے اور رویے میں تبدیلی نہیں لا سکے تو باعث شرمندگی بھی ہے اور نبیؐ کے اُمتی بھی نہیں بولنا چاہئے کیونکہ اسلام نے گالی کا درس کبھی نہیں دیا،اسلام نے حلیمی, برداشت صبروتحمل اور بھائی چارہ کا درس دیا ہے جس کو ہم مکمل طور نظر انداز کر چکے ہیں۔کسی بھی گھرانے میں گالی نہیں سکھائی جاتی ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ نرم گفتار، عزت و احترام کے مالک ہو، تہذیب و شائستگی کو اپنائے رکھے,مگر افسوس ہمارے پڑھے لکھے حضرات میں ان سب کی کمی ہے پسند و ناپسند کی بنیاد پہ اخلاقیات,تہذیب و ثقافت کو روند کر دینی و دنیاوی معاملات میں رائے کا آغاز دلیل کے بجائے گالم گلوچ سے کرتے ہیں اور پھر گالی دینے کو عزت و وقار سمجھ کر سینہ چوڑا کر دیتے ہیں۔سیاسی کارکنان تو پارٹی کی محبت میں گالی کو اپنے مشن کا حصہ سمجھ کر وار ایسا کرتے ہیں جس کا نقصان خود پارٹی سربراہ کو اٹھانا پڑتا ہے۔ان تمام صورت حال سے کسی کو فرق نہیں پڑتا البتہ گالی نکالنے والے کو, ذی شعور لوگوں کے ساتھ ساتھ پارٹی کے سمجھ بوجھ رکھنے والے بھی خود سے دور کرکے اس کے خاندان کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں ایک خاندان یا قبیلے کا کوئی فرد کسی اچھے عہدے پر ترقی ملتی ہے تو قوم قبیلہ ملکر واہ واہ اور خوشیاں مناتے ہیں کیا ہم نے یہ سوچا ہے ہمارے غلط الفاظ سے ہمارے اہل و عیال,رشتہ دار و مذہب دوست دُکھی نہیں ہوتے ہیں؟ کیا ہم شرمندگی کا باعث نہیں بن رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کے مستقبل کا آغاز گالم گلوچ سے شروع نہیں کر رہے؟
اختلاف جمہوریت کا حسن ہے مگر جواب دلیل سے ہونی چاہئے نہ کہ گالیوں سے,کیونکہ گالی کی اجازت اسلام میں نہیں اور نہ ہی معاشرے میں ایسے بڑے منہ والے کو پسند کیا جاتا ہے۔میری اپنے بڑے,چھوٹوں سے گزارش ہے خدارا گالی نکالنے سے پہلے ایک بار اپنے آپ سے سوال ضرور کیجئے کہ کیا۔ مذہب و معاشرے میں اس کی اجازت ہے؟ کیا واقع غلط الفاظ کے استعمال سے اچھے لوگوں کی صحبت سے دوری ہوگی؟ کسی بھی پوسٹ یا رائے کیساتھ اختلاف ضرور رکھیں مگر جواب دلیل اور اخلاقیات کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے دیں تاکہ ہمارے تعلیم و تربیت اور خاندان کے بارے میں شکوک و شہبات پیدا نہ ہو۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔