یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے.

…….فیض العزیز فیض..

جب کبھی بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک سے ھمارا دل سہم جائے جب ھم غفلت کی نیند سے جاگ جائیں …….زلزلے کی ہولناکی، سیلابی ریلے یا سمندری طوفان کی سرکشی، گرمی کی شدت، قحط غرض کوئی بھی قدرتی آفت ہو، جیسے کہ کرونا وائرس. ڈینگی مچھر یہ سب اللہ کے عذاب کی یاددہانی ہے، یہ احساس دلانے کو ، کہ آج وقت ہے ، مہلت ہے ، سنبھل جائیں ۔ اپنی پیدائش کو بیکار نہ جانیں۔ خدا سے بے خوف مت ہوں ۔تم ایک خاص مقصد کے لئیے زمین میں لاکر چھوڑ دئیے گئے ہو.ایک واقعہ یاد آیا جو پہلے کبھی ایک اللہ والے نے سنایا تھا.
ایک دن ایک بادشاہ اپنے تین وزراء کو دربار میں بلاکر تینوں کو حکم دیتا ہے کہ تینوں ایک ایک تھیلا(شاپر) لے کر باغ میں داخل ہوں.
اور وہاں سے بادشاہ کے لیے مختلف اچھےاچھے پھل جمع کرکے لائیں. وزراء بادشاہ کے اس عجیب حکم پر حیران ہوجاتےہیں. خیر تینوں ایک ایک تھیلا پکڑکر باغ میں داخل ہوتے ہیں.
پہلا وزیر کوشش کرتا ہے کہ بادشاہ کے لیے ان کی پسند کے مزیدار اور تازہ پھل جمع کرے اور وہ اسی طرح بہترین اور تازہ پھل سے تھیلا بھر دیتا ہے
دوسرے وزیر کا خیال ہوتا ہے کہ بادشاہ یہ تمام پھل خود تو نہیں کھایے گااور نہ ہی پھلوں میں بیٹھ کر فرق دیکھے گا
اس لیے وہ بغیر فرق دیکھے ہر قسم کے تازہ اور پرانے پھلوں سے اپنا تھیلا بھر دیتا ہے
اور تیسرے وزیر کا خیال ہوتا ہے کہ بادشاہ کی توجہ صرف تھیلے کے بھرنے پر ہوگی اس کے اندر کیا ہے اسکےاندر بادشاہ نے کیا دیکھنا ہے.
یہی سوچ کر وزیر تھیلے میں گھاس پوس اور پتے بھر دیتا ہے. دوسرے دن بادشاہ تینوں وزراء کو اپنے تھیلوں سمیت دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیتا ہے. جت تینوں دربار میں حاضر ہوتے ہیں تو بادشاہ حکم دیتا ہے کہ تینوں کو ان کے تھیلوں سمیت تین ماہ کے لیے دوردراز جیل میں قید کر دو
اب اس دوردراز جیل میں تینوں کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا سوا اس تھیلے کہ جو انھوں نے جمع کیا ہوتا ہے. اب پہلا وزیر جس نے اچھے اچھے پھل چن کر جمع کیے تھے وہ مزے سے اپنے انہی پھلوں پر گزارہ کرتا ہے. یہاں تک کے تین ماہ باآسانی گزر جاتے ہیں. اور دوسرا وزیر جس نے بغیر دیکھے تازہ خراب تمام پھل جمع کیے تھے اس کے لیے جینا مشکل ہوجاتا ہے اور بڑی مشکل سے کچھ محدود تازہ پھلوں پر وہ تین ماہ گزار دیتا ہے
اور تیسرا وزیر جس نے اپنے تھیلے میں صرف گھاس بھوس ہی جمع کیا تھا
وہ پہلا مہینہ گزرنے سے پہلے ہی بھوک کی شدت سے مر جاتا ہے
اب ھم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں . کہ کیا جمع کر رہے ہیں ؟ اس وقت ھم اس باغ میں ہیں. جہاں سے ھم چاہیں. تو پھلدار زائقہ دار میوے جمع کریں یا گھاس پھوس. مگر یاد رہےجب بادشاہ کا حکم صادر ہوگا. تو ھمیں جیل (قبر) میں بھیج دیا جائے گا. اس جیل میں ھم اکیلے ہونگے جہاں ھمارے ساتھ صرف ھمارے اعمال کی تھیلی ہوگی. اسی ضمن میں خواجہ عزیزالحسن مجذوب کا کلام یاد آیا. کہ.
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے.
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔