ترش و شیرین،..احتیاطی تدابیراورہمارے رویّے

… نثاراحمد…..
            کل جب عشاء پڑھنے مسجد پہنچا تو نماز کھڑی ہونے میں ابھی دو تین منٹ باقی تھے۔ صف کے ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھے جماعت کھڑی ہونے کے انتظار کرنے لگا۔ اسی اثناء میں دیکھا کہ ایک صاحب دھیمے لہجے میں فرما رہے تھے کہ ان حالات میں مسجد سے مُلحِق “کُوٹاکے” ( کُوٹاکے چترال میں مسجد سے متصل ایک کمرہ ہوتا ہے جس میں آگ سلگانے کے لیے آتش دان ہوتا ہے ۔آتش دان کے اوپر پانی کی ایک ٹینکی دھری ہوتی ہے مسجد میں وضو بنانے والوں کو اس ٹینکی سےگرم پانی میسر ہوتا ہے)  میں آگ تاپنے کے لیے جمع ہونا احتیاطی تدابیر کو پاؤں تلے روند ڈالنے کے مترادف ہے۔ لہذا اب کُوٹاکے میں بیٹھنے سے احتراز برتنا چاہیے۔ یہ صاحب اپنے نقطہء نظر کی تائید میں علماء کرام خصوصاً مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام لے رہے تھے۔ ان کی باتوں کے دوران قریب ہی اگلی صف میں تشریف فرما ہماری مسجد کے ایک سفید ریش پرمننٹ نمازی کے بڑبڑانے کی آواز آئی۔ کان اُن کی طرف لگایا تو اُن کے یہ جملے کانوں سے آ ٹکرائے۔
             “یہ اِس زمانے کے علماء کی باتیں ہیں، زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ۔ معاملہ اتنا حساس نہیں ہے، آئی موت کو کیا کوئی ٹال سکتا ہے؟؟ ہمارا یقین مضبوط ہونا چاہیے بس۔ کچھ نہیں ہو گا کچھ بھی نہیں”
سفید ریش بزرگ کے ارشادات ابھی رُکے نہیں تھے کہ پیش امام کی آمد کے ساتھ جماعت کھڑی ہو گئی۔
          اللہ معاف فرمائے کہ نماز کے دوران اس سفید ریش بزرگ کے “تصوّرِ یقین” نے میرے ذہن کو بُری طرح جکڑے رکھا۔ ایک خیال آتا،چلا جاتا۔ پھ اس خیال سے دوسرا خیال پھوٹ پڑتا۔ یوں خیالات کے غیاب و ذہاب نے نماز کے لیے مطلوب یکسوئی کا ستیاناس کرکے مجھے گہری سوچوں کی وادی میں دھکیل دیا۔میں سوچتا رہا کہ جب اِن صاحب کا یقین اتنا پختہ، ایمان اتنا مضبوط اور بھروسہ اتنا کامل ہے تو پھر جب زلزلہ آتا ہے تو یہ “صاحب” فَٹ سے کمرہ چھوڑ کر باہر بھی نہیں نکلتے ہوں گے۔ جب کہیں دیوار گرتے دیکھتے ہوں، تو پھر یہ نیچے سے  دائیں بائیں بھی نہیں ہٹتے ہوں گے۔ جب کبھی سیلاب آنے پر خطرے کی گھنٹی بجائی جا رہی ہو تو یہ صاحب بھول کر بھی اپنی جگہ سے ہِلتے تک نہیں ہوں گے۔ جب کبھی پندرہ بیس فٹ کی بلندی سے نیچے کُودنے کی ضرورت پڑتی ہو تو یہ “صاحب” سیڑھی لگوا کر اترنے کی زحمت جھیلے بغیر ڈائرکٹ کود جاتے ہوں گے۔ آخر یقین ِکامل کی دولت سے مالا مال اور مضبوط ایمان سے لیس جو ہیں۔
          پھر میں نماز کے بعد سوچتا رہا لیکن حقیقی دنیا میں ایسا کرتا ہوا ہمیں کوئی نظر کیوں نہیں آتا؟؟۔ مجھے ایسا شخص ملا ہے اور نہ ہی کبھی میرے کسی واقف کار کو، جو یقین کامل کے نام پر درختوں سے کود جاتا ہو، جو  زلزلے کے شدید جھٹکوں کے درمیان کمرے میں بیٹھے دیواروں کے زمین بوس ہونے کا انتظار کرتا ہو،  طغیانی کے دنوں میں دریائے چترال محض یقین ِکامل کے بل بوتے پر عبورکرتا ہو۔
            خیالات اورخواب کی دنیا کا معاملہ الگ ہے۔ ایک شخص خیالات میں محو ہو کر قِسمہائے خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ تو سکتا ہے مگرعملی دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ خواب الگ چیز ہے اور عملی حقیقت چیزے دیگر است۔ جب شدید زلزلہ آتا ہے, جب گاؤں سیلاب بُرد ہونے کے خطرے کا اعلان کیا جاتا ہے تو کیا کمزور یقین والے،کیا مضبوط ایمان والے سب کے سب بچ بچاؤ کے لیے اُلٹےقدموں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
         پھر میں مزید سوچتا رہا کہ غلط تفہیم و تطبیق کی وجہ سے  “تقدیر”، “توکل” اور “اللہ پر یقین”  جیسی اصطلاحات اپنے اوریجنل معنیٰ سے کوسوں دور نکل چکی ہیں۔ ان اصطلاحات کو من پسند مفہوم پہنا کر آج کا مسلمان سخت گڑبڑ مچا رہا ہے۔ ہمارے استاد محترم مولانا محمود اشرف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ
          “اگر کوئی شخص اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے بچ جانے کی امید پر چالیس پچاس فٹ اونچی دیوار سے نیچے چھلانگ لگالے تو اُس کا یہ اقدام خودکشی کے زمرے میں آئے گا۔ کیونکہ ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ ہم اللہ کو آزمائیں۔ اللہ ہمیں آزما سکتا ہے ہم اللہ کو نہیں آزما سکتے۔”
          کسی کے بلنڈر، غلط فیصلے اور مجرمانہ اقدام کو “تقدیر” کے کھاتے پہ ڈال کر اُس پہ پردہ ڈالنے کی روایت ہمارے معاشرے میں عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ کیا ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا؟؟ کہ ڈرائیور کی نااہلی اور بے احتیاطی گاڑی میں بیٹھے بیس پچیس مسافروں کی جان لے لے تو “مقدر میں یہی لکھا تھا” کہہ کر سانحے پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔ ٹرین حادثہ سینکڑوں انسانوں کو نگل لے تو حادثے کا سبب بننے والے عوامل کو دیکھنے،پرکھنے اور جانچنے کے بعد متعلقہ زمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے “نوشتہ ء تقدیر” سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔ اپنی غفلت و سستی پر پردہ ڈالنے، سعی و محنت  سے فرار ہونے کے لیے جواز تراشنے اور اپنی نکما پنی کو عیاں ہونے سے بچانے  کے لیے “توکّل” کو ڈھال بنانا ہم میں سے بہت سوں کا طرہ ء امتیاز رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ بات کہاں سے ہمارے ذہنوں میں بٹھائی اور بسائی گئی کہ توکّل کا مطلب مستقبل کی منصوبہ بندی سے روگردانی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
توکّل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر۔
        شاید حکمت کے بادشاہ ہمارے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کو پہلے سے معلوم تھا کہ میری امت توکّل کے نام پر گڑبڑ کرے گی اسی وجہ سے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل ایک صحابی کے سوال کے جواب میں “اِعقَل و توکّل” فرما کر یہ اصول عنایت کر گئے کہ حتی المقدور کوشش کے بعد ہی نتیجہ اللہ کے حوالے کرنا توکّل ہے۔ کوشش کیے بغیر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر نتیجہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے سپرد کر کے بیٹھ جانا کچھ اور ہو تو ہو، توکّل ہرگز نہیں۔
         اسی طرح تقدیر کا ایسا مطلب ہرگز نہیں لینا چاہیے کہ انسان مکمل مسلوب الاختیار اور مجبور ِمحض بنے اور حضرت ِ انسان اور مشینی روبوٹ میں فرق نہ رہے اس صورت میں اچھے برے، نیک وبد اور صالح و فاسق والی لکیر کھینچنے کی کوئی تُک بھی باقی نہیں بچتی۔
       آمدم برسرِ مطلب چین کے صوبہ ووہان میں کرونا وائرس کے نام سے ایک وائرس کا چرچا ہوا۔ وائرس سے پھوٹنے والی وبا چونکہ نئی نویلی تھی اس لیے اس کے پھیلنے کی وجوہات اور طریقہ ء علاج پر ماہرین ِطب جبڑوں میں انگلیاں دابے سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اِسے روکنے کے لیے کَیا کِیا جائے۔
مجھے یاد ہے کہ جنوری کے مہینے میں جب پڑوسی ملک چین اس نئی مصیبت سے نبردآزما تھا تو مجھ جیسے سوشل میڈیائی افلاطون چین کی “چمگادڑ خوری” کو وبا کی وجہ قرار دے کر چینیوں پر ہنس رہے تھے۔ پھر چین میں پنجے گاڑنے کے بعد اِس وبا  نے باقی دنیا کو بھی متاثر کرنا شروع کیا۔ یہ وقت تھا احتیاطی تدابیر کا، اربابِ حل و عقد کی مستعدی ، معاملہ فہمی اور زِیرَکی کا۔ اربابِ بست و کشاد کی طرف سے ٹھوس اقدامات کا۔  تدبیر خاک کرتے۔ اُلٹا اِن کی بے تدبیری کی وجہ سے اب یہ متعدی وبا گھر گھر دستک دینے کے لیے بے تاب پھیر رہی ہے۔ اب تو معاملہ حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل کر ہر شہری کے ہاتھ میں آ چکا ہے۔ یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم اس وبا کو روکنے اور اس سے بروقت نمٹنے کے لیے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
       لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بلیم گیم کھلینے اورآپس میں ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کا پرانا حساب کتاب بےباق کرنے کی بجائے یک جان و یک فکر ہو کر کرونا کو پچھاڑنے، اوراسے شکست دینے کی فکر کریں۔ مصیبت و آفت کی اس گھڑی میں ہم توبہ واستغفار کریں، گناہوں سے توبہ تائب ہو کر اپنے خالق کو منانے کی فکر کریں، طبی ماہرین کے بتائے ہوئے ہدایات کی روشنی میں ہر گھنٹہ دو گھنٹے بعد ہاتھ دھوئیں،چہرے پر ماسک اور ہاتھوں میں داستانے پہنیں، ہاتھ بار بار ناک، منہ اور آنکھوں کی طرف لے جانے سے گریز کریں, سماجی دوری اختیار کریں، سخت ضرورت کے بغیر گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ اس سے بچنے کی اگر ہم نے اپنی پوری کوشش صَرف کی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہماری حفاظت فرمائیں گے۔ اگر ہم نے وائرس زدہ ہونے سے خود کو بچانے کی کوشش نہیں کی تو پھر ہمیں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
      مادی وسائل سے لیس امریکہ جیسا سپر پاور جس وائرس کے آگے بے بس نظرآتا ہے ہم جیسےغریب بھیک منگو ممالک کیا بیچتے ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔