ذخیرہ اندوزی کے خلاف پاکستان علماء کونسل اوردارالافتاء کا فتویٰ

……تحریر:محمد شریف شکیب….

ذخیرہ اندوزی کے خلاف پاکستان علماء کونسل اور دارالافتاء نے فتویٰ جاری کردیا۔ علمائے کرام نے فتوے میں ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع کو حرام قرار دیا ہے۔فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور عوام کے استعمال کی چیزوں کا ذخیرہ کرنا شرعی طور پر ناجائز ہے، ناگہانی صورتحال میں خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ لوگوں سے دور کرنا مصیبت زدگان کو مزید تکلیف میں مبتلاکرنے کے مترادف ہے۔فتوے کے مطابق معاشرہ اللہ کی رحمت کا طلب گار ہے ایسے میں ذخیرہ اندوز عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔فتوے میں کہا گیا ہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ نے بیزاری کا اظہار کیا ہے لہٰذا تاجر ضرورت کی روز مرہ کی اشیاء عوام کو فوری مہیا کریں۔فتوے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ حکومت ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے اور ذخیرہ کی گئی اشیاء ضبط کرکے مستحقین میں تقسیم کر دے۔علمائے کرام کے مطابق حکومت کریک ڈاؤن کرکے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو عبرت کا نشان بنائے۔تجارت پیغمبری پیشہ ہے، دیانت داری اور ایمانداری کی تجارت رحمت خداوندی کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔اگر اس میں بے ایمانی کا عنصر شامل ہوجائے تو یہ رحمت کی بجائے زخمت بن جاتی ہے۔تاریخ اسلام کے مشاہدے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مسلمان تاجروں کی دیانت داریاور ایمانداری کی وجہ سے برصغیر سمیت اکثر ملکوں میں دین اسلام کو قبولیت حاصل ہوئی۔تاہم آج تجارت اور کاروبار میں جتنی بددیانتی اور بے ایمانی ہمارے ہاں پائی جاتی ہے شاید دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔چین سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں معیار کے لحاظ سے مختلف درجات کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔بہترین معیار کی چیز مہنگی اور کم معیار والی چیز سستی ملتی ہے۔مگر ہمارے ہاں کم ترین معیار کی ملاوٹ شدہ، جعلی اور دو نمبری چیز بہترین معیار کی قیمت پر بیچی جاتی ہے۔مادیت پرستی میں ہم اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ ہرچیز میں ملاوٹ کرنا ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ دودھ میں پانی اور سستا کیمیکل ملاکر خالص دودھ کے دام پر بیچتے ہیں، مصالحہ جات میں بھٹہ خشت والی اینٹیں پیس کر اور لکڑی کے برادے ملاتے ہیں، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے ملاتے ہیں۔اب تو بازار میں اصلی چیز خوردبین لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ قدرتی آفات، آزمائش اور مصیبت کے لمحات کو بھی ہم کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں،آج کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ہرملک،شہراورقصبے میں کاروبارزندگی معطل ہے، حکومت نے اشیائے خوردونوش کے کاروبار کو لاک ڈاون سے چھوٹ دیدی تاکہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں آسانی سے خرید سکیں،ملک میں گندم، آٹے سمیت کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں،اس کے باوجود آٹھ سو روپے آٹے کا تھیلا 13سو روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔رمضان المبارک کی آمد میں تین ہفتے ابھی باقی ہیں جبکہ روزوں میں استعمال ہونے والی اشیاء ابھی سے مارکیٹ سے غائب ہونے لگی ہیں تاکہ ماہ صیام کی آمد پر ذخیرہ کی گئی اشیاء مارکیٹ میں لاکر من مانی قیمتوں پر بیچ کر سال بھر کی کمائی ایک ہی مہینے میں حاصل کی جاسکے۔ اس مرحلے پر علماء کونسل کی طرف سے دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، گرانی اور ذخیرہ اندوزی کو غیر شرعی، خدا اور رسول سے بغاوت قرار دینابرمحل، موجودہ وقت اورحالات کے عین موافق ہے۔علمائے کرام نے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف تعزیری قوانین کے سختی سے نفاذ پر بھی زور دیا ہے تاکہ لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے اور پیغمبری پیشے کو بدنام کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جاسکے۔کورونا وائرس کی وباء خوف خدا سے عاری اور ناشکرے لوگوں کے لئے خود کو سدھارنے کا زریں موقع ہے تاکہ وہ مادیت پرستی چھوڑ کر خداترسی اور معبود پرستی کی راہ پر آجائیں۔جن لوگوں کی آنکھوں سے حرص، لالچ اور مادہ پرستی کی پٹی ابھی اتری ان کے ساتھ ریاستی قوانین کے تحت سختی سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں ایسے لوگوں کا سماجی مقاطعہ بھی ناگزیر ہے جس سے انہیں احساس دلایا جاسکے کہ دولت جمع کرنے کی دھن میں عوام کی جانوں سے کھیلنے والے معاشرے کے مجرم ہیں اور مجرم جب ناقابل اصلاح ہو تو قابل نفرت بن جاتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔