امداد کی تقسیم پرسوالات

…….محمد شریف شکیب……

احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت مستحق خاندانوں کو مالی امداد کی فراہمی اسی ہفتے شروع ہوجائے گی۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی بہبود ثانیہ نشتر کے مطابق پروگرام کے تحت چار ماہ کیلئے روز مرہ استعمال کی اشیاء پوری کرنے کیلئے ایک مستحق خاندان کو ایک ہی مرتبہ بارہ ہزار روپے کی مالی امدادملے گی۔ مالی امداد کا مقصد کوروناوائرس کے پیش نظر لاک ڈاون سے متاثرہ معاشرے کے محروم طبقات کی مدد کرنا ہے۔ اس سروس کے ذریعے اب تک تین کروڑ چالیس لاکھ پیغامات موصول ہوچکے ہیں۔ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کا حتمی فیصلہ اعدادو شمار کے جائزے،مالی حیثیت، ماہانہ بلوں کی اوسط شرح اور سفری تاریخ جیسے جانچ پڑتال کے طریقوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ سرکاری ملازمین اس سکیم سے استفادہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔دیہاڑی دار مزدوروں کو شکایت ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر انہوں نے موبائل ایپ پر اپنے شناختی کارڈ نمبر بھیجے تھے انہیں ایس ایم ایس کے ذریعے جواب ملا کہ اپنے ضلع کی انتظامیہ کے ساتھ اس حوالے سے رابطہ کیا جائے۔جبکہ ضلعی انتظامیہ نے اس حوالے سے مستحقین کی اب تک کوئی رہنمائی نہیں کی۔صوبائی حکومت کے اداروں کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کے سیکرٹریوں کے ذریعے تمام مستحق خاندانوں کی فہرست ضلعی انتظامیہ کے حوالے کردی گئی ہے۔جبکہ متاثرین کو یہ شکایت ہے کہ کسی سرکاری ادارے کی طرف سے ان کے ساتھ رابطہ نہیں کیا گیاایسا لگتا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے سیکرٹریوں نے اپنے دفاتر میں بیٹھ کر مستحقین کی فہرستیں تیار کی ہیں احساس کفالت پروگرام کے پاس بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والی خواتین کی فہرستیں پڑی ہیں اگر انہی فہرستوں کی بنیاد پر مالی امداد تقسیم کی گئی تو 80فیصد غریب اور مستحق لوگ محروم رہ جائیں گے کیونکہ یہ حقیقت آشکارہ ہوچکی ہے کہ انکم سپورٹ پروگرام سے زیادہ تر غیر مستحق لوگ ہی استفادہ کر رہے ہیں۔سپورٹ پروگرام کے کارڈ ماضی میں سیاسی رشوت کے طور پر تقسیم کئے گئے۔وفاقی حکومت کے حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ بی آئی ایس پی سے مالی امداد لینے والوں میں گریڈ سترہ سے بائیس تک افسران، ان کی بیگمات اور اراکین اسمبلی سمیت 22ہزارسرکاری ملازمین شامل تھے۔سرکاری ملازمین کے نام فہرست سے نکالنے کے باوجود اب بھی ایک ہی خاندان میں چار پانچ افراد کو یہ امداد ملتی ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے بچے بیرون ملک لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔کورونا وائرس سے متاثرہ غریب لوگوں کے لئے مختص مالی امداد حاصل کرنے کی درخواست کرنے والوں میں بھی ایک ہی خاندان کے کئی کئی افراد شامل ہیں جن لوگوں کو انٹرنیٹ اور موبائل کی سہولت تک حاصل نہیں، وہ کہاں جائیں؟گذشتہ دو ہفتوں سے لاک ڈاون کے باعث ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اس میں حکومت کا کوئی دوش نہیں، یہ قدرتی آفت ہے جس سے لوگوں کا کاروبار، ملازمت اور روزگار داؤ پر لگ گیا ہے۔یہ بھی ممکن نہیں کہ حکومت تمام غریب اور مستحق لوگوں تک امداد پہنچائے۔آج پوری انسانیت آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے ہر صاحب حیثیت انسان کا اخلاقی، معاشرتی، قومی اور مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنے آس پاس رہنے والوں کی خبرگیری کرے۔جن لوگوں کی سرکاری اداروں اورمخیر لوگوں تک رسائی نہیں، ان کی رہنمائی کرنا بھی صدقے کے زمرے میں آتا ہے۔وزیراعظم کی معاون خصوصی کے مطابق حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد کی مالیت بارہ ہزار ہے حکومت تین تین ہزار روپے کی سالانہ امداد چار مہینوں کیلئے یک مشت دے رہی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پانچ سے آٹھ افرادپر مشتمل خاندان بارہ ہزار روپے سے کتنا عرصہ گذارہ کرسکتا ہے۔بہتر یہی ہے کہ نقد مالی امداد کے ساتھ حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کرے تاکہ غریب لوگ بھی دال، سبزی خرید سکیں۔جب سے کورونا وائرس کی وباء پھیلی ہے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے ہیں اور روزمرہ ضرورت کی اشیاء غریب تو کجا،متوسط طبقے کی قوت خرید سے بھی باہر ہوچکی ہیں، مارکیٹ کنٹرول کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کرنے والے شتر بے مہار بن گئے ہیں وفاقی اور صوبائی حکومت صحت کی سہولیات بہم پہنچانے اور مالی امداد کے اجراء کے ساتھ ساتھ اپنی انتظامی مشینری کے ذریعے مارکیٹ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے غریبوں کو ریلیف فراہم کرسکتی ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔