چالاک ادارے کی چالاک بجلیاں تحریر ایم نایاب فارانی

کچھ دن پہلے موجودہ حکومتی جماعت کے خاص الخاص حمایتی میرے ایک قریبی دوست کو کمر توڑ دینے والا بجلی کا بل موصول ہوا۔ میرا دوست دہائیاں دینے لگا کہ یار ظلم کی اتنہا دیکھو۔ آج تک مجھے اتنا زیادہ بل نہیں آیا۔ ایک تو اتنی زیادہ لوڈ شیڈنگ، اوپر سے ہم بجلی زیادہ استعمال بھی نہیں کرتے۔ پھر بھی اتنا زیادہ بِل آ گیا ہے، بھلا میں کہاں سے ادا کروں گا۔ میں نے دوست کی باتوں کے جواب میں مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہا ”ہور چوپو“۔۔۔

غالباً مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا۔ میں مانتا ہوں کہ اپنے دوست کے ساتھ میرا یہ رویہ درست نہیں تھا۔ لیکن شاید کبھی کبھی مجھے ایسے لوگوں پر غصہ آتا ہے۔ جنہیں سمجھایا بھی جاتا ہے، پھر بھی یہ عقل و شعور سے کام لینے کی بجائے ہر دفعہ کرپٹ لوگوں کو اپنے سر بیٹھا لیتے ہیں اور بعد میں روتے ہیں۔ آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزماتے ہیں۔ محل سراؤں کے باسیوں کو یہ اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں۔ اتنے میں ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ فلاں وکیل یا وزیر وغیرہ ہمارے پاس خود ووٹ مانگنے آیا ہے۔ جب الیکشن میں تعلق داریاں نبھاتے ہیں تو پھر بعد میں روتے کیوں ہیں؟ فقط ایک گلی یا نالی یا ریڑھی پر جو ووٹ دیتے ہیں، ان کا یہی حال ہونا چاہیئے۔ بہرحال میں مایوس ہرگز نہیں۔ اپنے عظیم فلسفی علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا کہا مان کر ہم شجر سے پیوستہ ہیں۔ امیدیں ابھی باقی ہیں۔ ان شاء اللہ وقت ضرور بدلے گا۔

ہمارا کیا ہے جی! ہم تو ہر مہینے کی آدھی سے زیادہ کمائی بلوں کی نذر کر کے بھی خوش ہی رہتے ہیں۔ گو کہ یہ خوشی کی بات نہیں مگر کیا کریں یہاں عوام کو آسانی سے خوشیاں نصیب نہیں ہوتیں۔ اس لئے ہم نے تو دکھ کا نام ہی خوشی رکھ لیا ہے۔ ویسے بھی جب آپ لوڈ شیڈنگ کے دوران ”افف مر گئے، اتنی زیادہ گرمی“ جیسے الفاظ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ تب ہم زندگی داؤ پر لگا کر دریا میں نہا رہے ہوتے ہیں۔ آپ بے شک ہمیں پینڈو کہو مگر ہم آپ کی طرح ذہنی اذیت سے گزر کر بھی خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمارا کیا ہے جی! ہم نے تو گرمی کا نام بھی سردی رکھ لیا ہے۔

گرمیوں میں ہمارے گاؤں میں کم از کم اٹھارہ بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بھی کمر توڑ دینے والے بل موصول ہوتے ہیں۔ بجلی جو مہنگی ہے وہ تو ہے مگر اتنے زیادہ بلوں کی وجہ واپڈا اور دیگر حکومتی اداروں کی چالاکیاں بھی ہیں۔ کئی چالاکیوں میں سے ایک چالاکی سمجھنے کے لئے آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ بجلی کے یونٹس پر قیمت کیسے لاگو ہوتی ہے۔ جو نہیں جانتے ان کے لئے عرض ہے کہ آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ایک ماہ میں جو جتنی زیادہ بجلی استعمال کرے گا اسے بجلی کی فی یونٹ اتنی ہی زیادہ مہنگی ملے گی۔ بجلی کی قیمت کچھ اس طرح سے لگائی جاتی ہے کہ بالفرض اگر ایک ماہ میں کسی نے 200 یونٹس استعمال کی ہیں تو پہلی 100 یونٹس کا ریٹ 500روپے لگا ہے تو اس کے بعد کی 100 یونٹس کا 900 لگے گا۔ یوں ایک ماہ میں 200 یونٹس کا ٹوٹل بل 1400 روپے ہو گا۔ اس طرح جیسے جیسے یونٹس زیادہ ہوتی جائیں گی، فی یونٹ کے نرخ (ریٹ) بھی زیادہ ہوتے جائیں گے۔ بجلی کی یہ قیمت فرض کی ہے اور ہمارے ادھر ”پیڈو“ ( پختونخواہ ایلکٹرک ڈیویپلمنٹ کمپنی) بجلی فراہم کرتی ہے۔ خیر اب حکومتی ادارے کرتے یہ ہیں کہ دو تین مہینے استعمال شدہ یونٹس سے بھی کم بل بھیجتے ہیں۔ اس کے بعد ایک مہینے پچھلی ساری بقایا یونٹس بھی شامل کرتے ہیں۔ یوں یونٹس زیادہ ہو جاتی ہیں اور فی یونٹ کا ریٹ بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔

اس سارے عمل کو ایک چھوٹی سی مثال سے مزید واضح کرتا ہوں۔ فرض کریں کہ پہلی 100 یونٹس پر فی یونٹ کی قیمت 5 روپے اور اگلی 100 تک فی یونٹ 9 روپے ہے۔ فرض کیا کہ آپ عموماً ہر مہینے 100 یونٹس استعمال کرتے ہیں۔ یوں آپ کا ماہانہ بل 500 روپے ہو گا اور دو مہینوں میں آپ ٹوٹل 1000روپے ادا کریں گے۔ اب ذرا حکومتی ادارے کی چالاکی ملاحظہ کیجئے۔ آپ نے ایک ماہ میں یونٹس تو 100 استعمال کی ہوں گی مگر یہ آپ کو کم یونٹس بالفرض25 یونٹس کا بل 125روپے بھیج دیں گے۔ پیچھے جو 75 یوٹنس بچتی ہیں وہ آپ کے کھاتے میں بقایا رکھ چھوڑیں گے۔ آئندہ ماہ کچھ یوں کریں گے کہ اس مہینے کی اپنی 100 یونٹس اور پچھلے مہینے کی بقایا 75 ملا کر ٹوٹل175 یونٹس ہو جائیں گی۔ بل کا حساب کتاب جس طرح ہوتا ہے اس طریقے کے مطابق اب پہلی 100 پر 5 روپے کے حساب سے 500 روپے اور باقی 75 پر 9 کے حساب سے 675روپے اور دونوں کو ملا کر ٹوٹل 1175روپے بل ہو جائے گا۔ اب ذرا غور کریں کہ جتنی بجلی آپ ہر مہینے استعمال کرتے رہے، اس حساب سے بل آتا رہتا تو دو مہینوں میں آپ 1000 روپے ادا کرتے۔ اب جبکہ حکومتی ادارے نے ہوشیاری دیکھائی ہے تو آپ نے پہلے مہینے 125 روپے اور دوسرے مہینے 1175 روپے ادا کیے یعنی دو مہینوں میں 1300روپے ادا کیے ہیں۔ اس طرح صارفین کو تکنیکی مار دے کر 300 روپے کا ”ٹیکہ“ لگا دیا گیا۔

یہ سمجھانے کے لئے ایک چھوٹی سی مثال دی ہے ورنہ حکومتی ادارہ تو اس سے کئی ہاتھ آگے ہے۔ یہ صرف ایک دو مہینے نہیں بلکہ تین چار مہینے ایسا کرتا ہے۔ جب بہت زیادہ یونٹس بقایا ہوتی ہیں تو پھر ایک مہینے ساری بل میں شامل کرتے ہیں اور وہی بجلی جو صارف کو سستی ملنی تھی، ایک تو یونٹس زیادہ ہونے کی وجہ سے مہنگی ملتی ہے اور اوپر سے جس مہینے پچھلی ساری یونٹس ڈالنی ہوتی ہیں، عموماً اس مہینے بجلی بھی مہنگی کر دی جاتی ہے۔ یوں تکنیکی مار دے کر اچھا بھلا ”ٹیکہ“ لگا جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی چالاکی پکڑی کیوں نہیں جاتی۔ اول تو پہلے لوگ اتنے میں ہی خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بل تھوڑا آیا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہی تھوڑا آگے چل کر تمہاری کمر توڑ دے گا۔ دوسرا اگر کوئی بندہ جو خود میٹر ریڈنگ دیکھتا ہے اور بل لے کر ادارے کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب آپ نے یونٹس تھوڑی ڈالی ہیں جبکہ میٹر تو زیادہ چلا ہوا ہے۔ جواب یہ ملتا ہے کہ میٹر ریڈنگ پندرہ دن پہلے ہوئی تھی۔ اب میٹر مزید چل چکا ہے اس لئے جو بقایا ہیں وہ اگلے مہینے کی ہیں۔ جب زیادہ بل لے کر جائیں تو کہتے ہیں کہ آپ خود جا کر میٹر دیکھ لیں وہ اتنا چل چکا ہو گا۔ ہر دو صورتوں میں وہ سچے اور عوام جھوٹے ہی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دھوکہ ہی ایسا دے رہیں جو آسانی سے پکڑا نہیں جا سکتا۔ ویسے بھی اب ہر مہینے کون اداروں میں دھکے کھاتا پھرے اور نہ ہی ہر کوئی ان کی چالاکی سمجھ سکتا ہے۔

ہمارے ادھر سردیوں میں بل کم آتے ہیں۔ عموماً اپریل میں پنکھے چلنے شروع ہوتے ہیں تو بل زیادہ ہوتا ہے۔ حکومتی ادارہ بڑا ہوشیار ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے اور پکڑے نہ جانے کے لئے یہ کرتے کچھ یوں ہیں کہ سردیوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مئی، جون اور جولائی تک وہی سردیوں جتنا یا اس سے ملتا جلتا بل بھیجتے ہیں۔ ایک روٹین کے مطابق بل سے صارف کو کوئی نئی بات نہیں لگتی اور اس کے ذہن میں خیال ہی نہیں آتا، مگر جیسے ہی اگست میں بل کمر توڑتا ہے تو تب تک ادارہ اپنی چالاکی میں کامیاب ہو چکا ہوتا ہے۔ یار لوگوں کو ”اگست میں مارچ“ کی فکر پڑی ہے جبکہ عوام کا جون جولائی تو کیا سارا سال ہی خراب چل رہا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے سے کیا ملازمین کو فائدہ ہوتا ہے؟ نہیں ملازمین کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ بل کے پیسے حکومتی ادارے کی جیب میں جاتے ہیں تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ ملازمین ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اجی ملازمین خود سے ایسا نہیں کرتے بلکہ یہ حکومت سمیت ادارے کے کرتا دھرتا کی ملی بھگت ہے۔ ادارے کو خسارے سے بچانے کے لئے اور وہ بجلی جو چوری ہو جاتی ہے اس کی قیمت پوری کرنے کے لئے اور اپنی کارکردگی دیکھانے کے لئے یہ سب کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں ان کی کارکردگی تو یہ ہے کہ بجلی چوری ہوتی ہے اور محکمہ خود بھی کرواتا ہے مگر عوام کو دھوکہ اور تکنیکی مار دے کر اپنی کارکردگی دیکھائی جا رہی ہے۔ یوں بجلی کی اصل قیمت سے بھی زیادہ پیسے دھوکہ دے کر عوام سے بٹورے جا رہے ہیں۔

یہ تو ایک ادارے کا ایک چھوٹا سا دھوکہ ہے ورنہ خدا جانے کہاں کہاں ”قانونی دھوکہ“ دیا جا رہا ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان کی پکڑ ہوتی ہے۔ بہرحال جو لوگ ابھی بھی خاموش رہ کر اپنی ”واٹ“ لگوانا چاہتے ہیں، انہیں صرف اتنا کہوں گا ”ہور چوپو“ اور خجل ہوتے رہو۔ خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا جنہیں اپنی مدد کرنے کا خود ہی خیال نہ ہو۔ باقی ہمارا کیا ہے جی! ہم تو کمینی سی خوشیوں پر بھی چیخ رہے ہیں۔ ان کمینی خوشیوں کو نہ دیکھو بلکہ ہوش کرو اور دیکھو کہ ہمیں دھوکے سے کیسے کیسے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ جی آپ نے ٹھیک پہچانا، میں واقعی جذباتی ہو رہا ہوں کیونکہ خود ہم ظلمت کی تاریک راتوں میں مدہوش پڑے ہیں اور دوسروں کی کمینی سی خوشیوں پر چیخ اٹھتے ہیں۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔