دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اسپہ ہمی اژیلی مشقول کھوارا بونیان مگم اسپہ داراکہ نو دوسیان)

……..تحریر: شمس الحق قمرؔ گلگت …….

اقوام متحدہ کے ایک ادارے یو نیسکو کے مطابق دنیا میں دو ہزار سے زیادہ زبانوں کو بہت جلد صفحہ ہستی سے مٹنے کا خطرہ لاحق ہے جن میں سے دو سو زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعدا دس یا بیس سے زیادہ نہیں ۔ وہ دو سو زبانیں جن کے بولنے والے صرف دس یا اس سے کچھ زیادہ ہیں وہ لوگ بھی تیزی سے زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کرناآسان ہے کہ کچھ زبانین قلیل مدت کے اندر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی مفقود ہونے والی زبانوں میں کھوار بھی شامل ہے ؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ملنا قرین قیاس ہے ۔ مجھے اس پر سنجیدگی سے سوچنے کا خیال اُس وقت پیدا ہوا جب فیس بک کے ایک پیج میں خبر چھپی کہ لواری کے اُس پار بسلسلہ ملازمت بسنے والی آبادی یا مکمل طور پر نقل مکانی کرنے والے چترالی لوگ کھوار زبان کی تیزی سے فوت کے سلسلے کا شاخسانہ ہیں ۔ زبان کے حوالے سے بہت سارے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ بہترین زبان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ دوسری زبان کے الفاظ کو اپنے اندر آسانی سے مدغم کرتی ہے ۔ یہ خیال کھوار پر صادق آتا ہے جو کہ مثبت امر ہے ۔یہ عمل فطری طور پر ظہور پزیر ہوتا ہے اس کی مثال کھوار میں مدغم ہونے والے پشتو اور اُردو زبان کے الفاظ ہیں۔ اس سلسلے میں پشتو زبان کے چند الفاظ یا تراکیب کا کھوار زبان کے روزمرے میں مستعمل ہونا مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ ’’ لکہ ‘‘ ’’ملگیری ‘‘ وغیرہ یہ مثالیں اس لیے بھی مثبت ہیں کہ ان سے دوسری قریبی زبانوں کے بولنے والوں سے تعلق اور روابط کا گہرا رنگ ا چھککتا ہے ۔تاہم چترال کے ایک فیس بک پیج پر چھپنے والی خبر ایک نیا انکشافی نہیں بلکہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے ۔ معدودے چند خاندانوں کے چترال سے دور رہنے یا بسنے والے ہمارے بہت سارے خاندان ایسے ہیں جن کی نسل اپنی زبان مکمل طور پر بھول رہی ہے ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے جو بہن بھائی اپنے خاندانوں کے ساتھ پاکستان کے دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھوار میں گفتگو نہیں فرماتے، اوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم دوسروں کے سامنے اپنے ہی بچوں کے ساتھ اپنی ہی مادری زبان میں ہم کلام ہونے سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں ۔ مصیبت یہ ہے کہ جس دوسری زبان میں ہم اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں اُس زبان میں ہم خود بھی پیدل ہیں یعنی وہ زبان کچھ اس ادا سے بولتے ہیں کہ جسے عام زبان میں گلابی اُردو یا گلابی انگریزی کہا جاتا ہے لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے بچے نہ اپنی مادری زبان درست ادائیگی کے ساتھ بول سکتے ہیں نہ دوسری زبان کیوں کہ ہماری گلابی زبان کا ہمارے بچوں کے اذہان پر گہرا چھاپ لگ جاتا ہے ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ اپنی مادری زبان ہی میں کلام کریں تاکہ و ہ اپنی مادری زبان بھی شائستگی کے ساتھ ادا کرنے کے قابل ہوں اور جس علاقے میں وہ مقیم ہیں اُن کی زبان کو بھی درست روزمرہ ومحارہ اور اصل لہجے کے ساتھ بول سکیں ۔ ہمارے وہ خاندان جو چترال سے باہر آباد ہیں اُن میں سے بہت کم ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے ساتھ اپنی مادری زبان میں باتیں کرتے ہیں ۔ یہ لوگ چونکہ ایک محدود کنبے کے اندر رہتے ہیں اور جب اپنے بچوں کے ساتھ اپنی ہی زبان میں کلام کرتے ہیں تو اُن کی کھوار چترال میں بسنے والے لوگوں سے بھی زیادہ پختہ ہوتی ہے لیکن اِن کے مقابلے میں وہ خاندان جو باہر آباد ہیں اور اپنے بچوں سے ڈیڈی او ر ماما ، مامی والی زبان میں بولتے ہیں تو وہ بچے اپنے خونی رشتوں کے مقدم ناموں کو بھی بھول جاتے ہیں ۔ اور ہمارے لوگ فخر سے کہہ اُٹھتے ہیں کہ ’’ ہمارے بچوں کو کھوار نہیں آتی‘‘ بظاہر یہ بہت چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں ہم ایک بڑی تباہی کے دہانے گئے ہوئے ہوتے ہیں کیوں کہ زبان کسی بھی معاشرے کی آئینہ داری کرتی ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ زبانوں میں کرختگی اور تُندی پائی جاتی ہے اور یہی کرختگی اور سختی صرف لہجے اور زبان تک محدود نہیں رہتی بلکہ اُن زبانوں کے بولنے والوں کے مزاج سے بھی وہی کچھ ٹپکتی ہے ۔ جتنی کوئی زبان شائستہ ، نرم اور ملائم ہوتی ہے اُتنے بلکہ اُس سے بھی ذیادہ اُس زبان کے بولنے والے با اخلاق ، با کردا با وقار ہوتے ہیں ۔
میں ذاتی طور پر بہت پڑھا لکھا یا جہان دیدہ آدمی نہیں ہوں نہ میں دوسری جگہوں کی تہذبت کے حالے سے جانتا ہوں تاہم گلگت میں عرصہ دراز سے مقیم ہوں لہذا اِن لوگوں کے ساتھ میرا جینا مرنا اور اٹھنا بیٹھنا ہے۔ یہاں کے لوگ بہت ہی مہذب اور یار باش لوگ ہیں مجھے ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ نشست و برخواست اور ہر قماش کی محفلوں اور رنگ رلیوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے ان تمام محافل میں ، میں نے ایک اہم بات ہمیشہ سے نوٹ کی ہے وہ یہ کہ جب بھی جہاں بھی اور کسی بھی محفل میں اگر ان لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ اس محفل میں کوئی کھوار زبان یعنی اصل کھوار بولنے والی شخصیت موجود ہے تو تمام شرکائے محفل اپنی گفتگو ، اپنی بحث و تمخیص اور اپنی حرکات و سکنات میں خصوصی طور پر احتیاط برتتے ہیں ۔ چترال کی زبان اور تہذیب کے حوالے سے ایک نشست میں میری زندگی کا وہ اہم واقعہ دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سے میں ہمیشہ اپنی زبان کی مالائمت اور اپنی تہذہب کی شائستگی پر نازاں رہوں گا ۔ ایک محفل میں ہم بیٹھے تھے تو لوگوں میں کسی موضوع پر اونچی آواز میں گفتگو ہونے لگی اُسی دوران میں کسی کام سے باہر نکلا اور واپسی پر دیکھا تو گفتگو ایک لطیف رُخ اختیار کر چکی تھی میں نے ساتھ والے ایک دوست کے کان میں بولا کہ یہ لوگ تو اُونچی آواز میں گفتگو فرما رہے تھے یکدم انہیں کیا ہو گیا کہ یہ دھیمے انداز میں اُتر آئے ؟ میرے دوست نے بتا یا کہ آپ کی وجہ سے یہ سب کچھ ایسا ہو ا ہے تو جب باہر نکلا تھا تو کسی نے انہیں بتایا کہ یہ آدمی جو ابھی باہر نکلا ہے وہ چترال کا باسی ہے اور کھوار بولتا ہے، کچھ لوگوں نے شرکائے محفل کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ہمیں پہلے بتانا چاہیے تھا کہ چترال کا کوئی شخص ہمارے درمیاں بیٹھا ہوا ہے تاکہ ہم شروع سے دھیمے انداز میں بولتے!
ہم میں سے بہت کم لوگوں کوعلم ہو کہ ہماری زبان کی میٹھاس پر لوگ مرتے ہیں ۔ یوں تو کھوار بہت ساری جگہوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن جو لہجے اور ادئیگی کی شیرینی ہے وہ شاید چترال کی کھوار ہی کا خاصہ ہے ۔ کسی بھی زبان کی فوتگی در اصل اُس قوم کی فوتگی ہے۔ مجھے میرے دادا کے ایک دوست کی ایک پرانی بات اب تک یاد ہے اُس نے میرے دادا کو مخاطب کرکے کہا ’’ اسپہ ہمی اژیلی کونیان کھوار مگم اسپہ دراکہ نو دویسان ‘‘

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔