داد بیداد……رولز ، ریگو لیشنز کے تا بوت

…….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ ……

خبر آئی ہے کہ خیبر پختو نخوا میں سرکا ری بینک کے اختیا رات محکمہ خزانہ کے پا س ہو تے تھے۔محکمہ خزانہ کا قلمدان وزیر خزانہ کے پا س ہو تا تھا۔ 2013ء کے بعد رولز اور ریگو لیشنز میں کو ئی تر میم نہیں ہو ئی۔قوانین پرانے چلتے ہیں ۔رولز آف بز نس پرانا ہے۔لیکن سرکا ری بینک کے اختیارات محکمہ خزانہ سے لیکر محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کو د ئے گئے ہیں ۔بقول شاعر ’’ میں خیال ہو ں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے‘‘ اگر حا جی عدیل ، عبدالاکبر خان یا فرحت اللہ بابر صوبا ئی اسمبلی میں اپو زیشن بنچو ں پر ہو تے ہیں ۔یا آفتاب شرپاؤ صوبا ئی اسمبلی میں ا پو زیشن لیڈر ہ ہوتے ۔ تو اسمبلی کے فلور پر یہ سوال اٹھاتے اور حکو مت کو آڑے ہا تھوں لیتے ۔لیکن صوبا ئی اسمبلی میں خا مو شی ہے۔سا را بو جھ میڈیا پر ہے ۔ا یسی خبروں کو صو با ئی اسمبلی کے حوا لے سے کو ریج دینے کی جگہ میڈیا خود سا منے لا تا ہے۔پھر بھی اسمبلی کے ایوان میں خا مو شی نہیں ٹو ٹتی۔لیڈر آف دی اپو زیشن کے کا نوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ایک اور خبر میڈیا کی زینت بنی ہے۔خبر یہ ہے کہ سپریم کو رٹ کے حکم سے خیبر پختو نخوامیں لو کل گورنمنٹ الیکشن کا اعلان فر وری 2015 میں کیا گیا۔اعلان کے بعد نیبر ہو ڈ کو نسل کے لئے دفتر ، فر نیچر اور عملے کا انتظام ہو نا چا ہیئے تھا۔ما رچ سے مئی تک تین مہینو ں میں اس کا انتظام نہیں ہوا۔ جب بھی فائل اوپر گئی۔ اوپر سے لکھا گیا ’’کیپ پینڈ نگ‘‘ اس کام کو التوا میں رکھو۔ 30مئی 2015سے 30نومبر2015تک چھ مہینوں میں 3بار فائل اوپر بھیجی گئی۔ تینوں دفعہ یہی جواب آیا کہ اس کو التوا میں رکھو۔ اگر کوئی صاحب ذوق آفیسر ہوتا تو فائل پر یہ بھی لکھ لیتا: ۔
نالہ ہے بلبل شوریدہ تیرا نام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
خیبر پختونخوا کی حکومت کو اس بات پر بجا طور پر فخر ہے کہ اس نے فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے بلدیاتی نظام کو ہو بہو نقل کر کے اپنا نظام نہیں بنایا۔ بلکہ ویلج کونسل اور نیبر ہوڈ کونسل کا نیا تصور دے کراس کو مزید بہتر بنایا۔ 20ہزار کی آبادی کو ایک کونسل اور ناظم دینے کی جگہ 5ہزار کی آبادی کو ایک کونسل اور ناظم دے دیا۔ یہ واقعتا پرانے نظام سے بہتر ثابت ہو سکتا تھا۔ مگر صورت حال اس کے برعکس ہے۔ 20ہزار کی آبادی والی یونین کونسل ختم کر دی گئی ہے۔ ویلج کونسل یا نیبر ہڈ کونسل کا نہ دفتر ہے ، نہ عملہ ہے، نہ ٹیلیفون ہے ، نہ فنڈ ہے۔ یہ کونسلیں ہوا میں معلق ہیں۔ صرف لوکل گورنمنٹ کے ویب سائٹ پر نظر آتے ہیں۔ فیس بک پر ان کا نام آتا ہے۔ پشاور، نوشہرہ، چارسدہ کے نواح میں کہیں بھی ویلج کونسل کا دفتر نظر نہیں آتا۔ دیر، سوات، چترال بٹگرام ، لکی مروت، اور ڈی آئی خان میں ان کونسلوں کا وجود زمین پر دکھائی نہیں دیتا۔ ڈسٹرکٹ کونسلوں اور تحصیل کونسلوں نے جو بجٹ پاس کیا۔ وہ بھی کاغذی بجٹ ہے۔ صر ف کاغذوں میں ہے۔ فنڈکسی کو بھی ریلیز نہیں ہوا۔ ایک طرف محکمہ خزانہ کے بینک کو محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے ذریعے چلایاجا رہا ہے۔ دوسری طرف لوکل گورنمنٹ کا سسٹم بھی محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کو دیا گیا ہے۔ سول سیکریٹریٹ پشاور کے قریبی حلقوں سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں۔ کہ مظفر سید اور عنایت اللہ کے محکموں کو کھڈے لائین لگا دیا گیا ہے۔ اندرونی کہانی یہ بھی ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل جماعت نے اس پر احتجاج کیا تو اس کا آسان حل قومی وطن پارٹی کے اونٹ کو خیمے کے اندر لا کر ڈھونڈ لیا گیا۔ پھر بھی احتجاج کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آیا۔ تو شہرام خان ترہ کئی نے قطرے کو دریا میں شامل کر کے جماعت کو خاموش کر دیا۔ اب رولز اور ریگولیشنز کا تابوت سول سیکریٹریٹ جانے والی شاہراہ پر رکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی اسمبلی، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس جانے والے راستے بھی اس شاہراہ سے ہو کر جاتے ہیں۔ آنے جانے والے رولز اینڈ ریگولیشنز کے تابوت کو دیکھتے ہیں۔ صوبائی محتسب کو آواز دیتے ہیں۔ مگر صوبائی سطح پر محتسب کے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ رولز اینڈ ریگولیشنز کا تابوت صوبائی محتسب کا مسئلہ نہیں ہے۔ چنانچہ صوبائی حکومت کے محکمہ خزانہ اور محکمہ بلدیات کے اختیارات کو پی اینڈ ڈی والے استعمال کر رہے ہیں۔ بینک کا جو انجام ہو گا وہ تو ہو گا۔ سر دست ویلج کونسلوں اور نیبر ہوڈ کونسلوں کا بُرا حشر ہوا ہے۔ ناظمین اور نائب ناظمین گھونسلوں کی تلاش میں در بدر پھر رہے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔