داد بیداد…..طریقہ واردات

…..ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ……

خبر آئی ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکو مت ہیلتھ کئیر کمیشن کو فعال بنا نے کے لئے اسمبلی میں بل لا کر قانون سا زی کرنا چا ہتی ہے ۔محکمہ صحت اور محکمہ قانون نے تجویز دی ہے کہ پنچاب سے کسی کنسلٹنٹ فرم کی خدمات حا صل کر کے بل کا مسودو تیار کر وایا جا ئے کنسلٹنٹ فرم کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ صوبا ئی حکومت اس کو اد اکر نے کی استطاعت نہیں رکھتی ۔اس لئے ایک بین لا قوامی ڈونر(Donor) ٹیکنیکل ریسو رس فیسیلٹی( TRF)سے رجوع کیا گیا ہے ۔چنا نچہ ٹیکنیکل ریورس فیسیلٹی کے ما لی تعاون سے بل کا مسودہ پنجاب میں ہما را کنسلٹنٹ تیار کرے گا۔ اس بل کے ذریعے صوبے میں نجی ہسپتا لوں کے سا تھ ڈاکٹروں کے کلینک ، ڈاکٹروں کی لیبا رٹر یاں، دند ان سا زی کے کلینک اورزچہ وبچہ کے نجی ہسپتال و کلینک حکومت کے کنٹرول میں آجائیں گے۔ صوبائی دار الحکومت کے اخباری حلقوں میں اس کو طریقہ واردات کہا جا تا ہے۔قصہ خوانی گپ شپ میں لوگ کہتے ہیں کہ حکومت جوکام کرنا نہیں چا ہتی اور عوام کے سا منے انکار بھی نہیں کر سکتی اس کام کو التواء میں ڈالنے کے لئے دو کام کر تی ہے۔ یا کمیٹی بنا دیتی ہے ۔ یا کنسلٹنٹ مقرر کر تی ہے ۔کنسلٹنٹ کیا کر تا ہے؟ اس پر کئی لطیفے گردش میں ہیں ۔ایک شخص نے کسی سے کنسلٹنٹ کے کام کے با رے میں پو چھا دوسرے نے جا مع اورآسان جو اب دے دیا ۔کنسلٹنٹ آپ کی گھڑی دیکھ کر آپ کو وقت بتا تا ہے ۔اور وقت بتا نے کی فیس کے طور پر آپ کی گھڑی لے جا تا ہے۔ یورپ کے کسی جنگل میں چرواہا بھیڑیں چرا رہا تھا ۔ایک سو ٹیڈ بو ٹیڈ آدمی جیپ میں بیٹھ کر آیا ۔قریب آکر اس نے جیپ روکی ۔نیچے اترا ۔چرواہے سے کہا مجھے ایک بھیڑ دیدو ،میں اس کے بدلے میں تمہاری بھیڑوں کی سا ری بیما ریوں کا حال بتادوں گا ۔چرواہے نے کہا پہلے ان میں سے ایک بھیڑ پسند کرو ۔اجنبی ایک جا نور کو گلے سے پکڑ کر قریب لایا اور کہا یہ بھیڑ مجھے پسند ہے ۔چرواہے نے پو چھا ۔تم مجھے کنسلٹنٹ لگتے ہو ۔ اجنبی نے کہا تم نے کیسے پہچان لیا ۔چروا ہے نے کہا جس جانورکو تم نے بھیڑ سمجھ کر پسند کیا یہ بھیڑ نہیں میرا پا لتو کتا ہے ۔اخباری زبان میں اس طرح کی تجاویز کو طریقہ واردات اس لئے کہتے ہیں کہ حکو مت بڑے بڑے لو گوں کی میٹنگ بلاتی ہے ۔میٹنگ میں آنے والا ہر شخص میٹنگ کو نا کام بنانے کا تہیہ کر کے آتا ہے ۔میٹنگ کے بعد ایک اور میٹنگ کا فیصلہ ہو تا ہے ۔چھ سات میٹنگوں کے بعد جب کچھ بھی نہ کرنے کا فیصلہ ہو تا ہے ۔تو اس فیصلے کے نتیجے میں یا کمیٹی مقرر ہو تی ہے یا کمیشن بنا یا جاتا ہے ۔یاپھر کنسلٹنٹ مقرر کیا جاتا ہے ۔معاملے کو اس قدر الجھایا جا تا ہے کہ اصل مسئلہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ایک معروف اور مشہور این جی او نے ایک پہا ڑی علاقے میں افیم کی لت میں مبتلا لوگوں سے افیم کی بری عادت اور افیم کا تباہ کن نشہ چھڑانے کے لئے دو کروڑ روپے دے دئے۔ افیم چھڑانے کے لئے 3ماہ تک پیراسیٹمول کی گولیاں، چھ ماہ تک ملٹی وٹامن کی گولیاں اور 2سالوں تک غذائیت سے بھرپور خوراک مفت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام پولیس سٹیشن کے ذریعے، مقامی سکولوں کی وساطت، مذہبی اداروں کے رضاکاروں کی وساطت سے یا یونین کونسل کی وساطت سے بآسانی انجام دیا جا سکتا تھا۔ لیکن این جی او نے اپنے سٹینڈرڈ کے مطابق کنسلٹنٹ مقرر کرنے کے لئے اشتہار دے دیا۔ کینڈا سے کنسلٹنٹ بلایا گیا۔ کنسلٹنٹ نے شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں ا س موضوع پر مذاکرے، ورکشاپ اور انٹرویو کروا کے پچاس لاکھ روپے اڑانے کے بعد رپورٹ دے دی۔ اس رپورٹ میں دوسرا کنسلٹنٹ مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ پھر اشتہار دے دیا گیا۔ اب کی بار پہلے کنسلٹنٹ کی بیوی نئی کنسلٹنٹ بن کر آگئی۔ اس کے کام میں بھی 50لاکھ روپے اڑگئے۔ اس کی رپورٹ میں علاقے کا جامع سروے کرانے کی تجویز دی گئی تھی۔ بقیہ ایک کروڑ روپے سروے کے نام پر اڑا دئے گئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سروے بھی ایک کنسلٹنٹ کے ذریعے کروایا گیا۔ یہ شخص دو کنسلٹنٹ کا باپ اور پہلے کنسلٹنٹ کا سسر تھا۔ یہ طریقہ واردات تھا۔ جس کے ذریعے افیمی کو ایک پیراسیٹا مول یا ایک ملٹی وٹامن کی گولی، ایک پاؤ گھی، ایک سیر آٹا، ایک پیکٹ فروس اور ایک سیر تازہ سبزی نہیں دی گئی۔ فنڈ ختم ہوا، دو من کاغذات رپورٹوں میں خرچ ہوئے۔ اور یہ ساری رپورٹیں الماریوں مین دفن ہوگئیں۔ اگر ہماری صوبائی حکومت ہیلتھ کئیر کمیشن ایکٹ میں مخلص ہے۔ تو اس ایکٹ کو ڈرافٹ کرنے والے لوگ محکمہ قانون اور محکمہ صحت کے اندر موجود ہیں۔ خالد عزیز، رستم شاہ مہمند، عبد اللہ، عبد الاکبر خان اور دیگر ماہرین موجود ہیں۔ ڈاکٹروں کی برادری میں ڈاکٹر حفیظ اللہ، ڈاکٹر ناصر الدین، اعظم خان، ڈاکٹر محمود خان، ڈاکٹر سردار الملک اور کئی نامور اور تجربہ کار ڈاکٹر موجود ہیں۔ لیکن طریقہ واردات یہ ہے کہ سیدھے سادھے طریقے سے ایکٹ نہ لایا جائے۔ رولز میں ترامیم نہ لائی جایں۔ اس میں “خورو اوسکو”ہونا چاہیئے۔ سیر سپاٹے بھی ضروری ہیں اور ہمیں کونسی جلدی ہے۔ دو چار سالوں میں کام ہو ہی جائے گا۔ اگر نہ بھی ہوا۔ تو کونسی قیامت آجائے گی۔جس میٹنگ میں کچھ بھی نہ کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس میٹنگ میں کنسلٹنٹ مقر ر کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا جاتا ہے۔ شرکاء ایک دوسرے کو آنکھ مارتے ہیں۔ اور صدر مجلس کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جعلی لیبارٹری چلانے والوں کو مبار ک ہو۔ پنجاب سے کنسلٹنٹ آکر ٹی آر ایف سے فیس لے کر جو رپورٹ بنائے گا۔ اسکی روشنی میں کوئی بل، کوئی ایکٹ اسمبلی میں کبھی پیش نہیں ہوگا۔ جعلی ڈاکٹروں، عطائیوں، غیر مستند مالکان کو نوید ہو کہ انکے خلاف قانون سازی میں کنسلٹنٹ حائل ہونے والا ہے۔ غیر قانونی زچہ و بچہ مراکز چلانے والوں کے لئے یہ خبر خوشخبری سے کم نہیں۔ خیبر پختونخوا میں ہیلتھ کیئر کمیشن کو فعال بنانے کا کام ایک بار پھر سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ کچھ نہ کرنے کا یہ بہانہ بہت خوب ہے۔ اور طریقہ واردات بے حد دلچسپ ہے۔

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى