دادبیداد…..ابرَہہ کا لشکر

…….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی……

وزیر اعظم میا ں محمد نو از شر یف نے آرمی چیف جنرل را حیل شریف کو سا تھ لیکر سعودی عرب اور ایران کا دورہ کر کے دو نوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کر نے کی کو ششوں کا آغاز کر دیا ہے ۔ان سطور کی اشاعت تک وزیر اعظم سعودی عرب اور ایران کا دورہ کر کے دونوں ملکوں کی قیادت سے کامیاب بات چیت کر چکے ہو نگے ۔ایسے مو اقع پررسمی اعلامیہ جا ری نہیں ہو تا ۔میڈیا کو مختصر بر یفینگ دی جا تی ہے اور خیر سگالی کے پیغامات پر مبنی ہینڈ آؤٹ جا ری کیا جا تا ہے ۔اور ایسی کو ششوں کے مثبت نتا ئج آنے میں کا فی دیر لگتی ہے۔ اس وقت سعودی عرب اور ایران کو چار طرح کے مسا ئل کا سامنا ہے ۔ ابرہہ کا لشکر عرب کی 10 ریا ستوں میں اڈے بنا چکا ہے ۔اور مسلمانوں کے مقامات مقدسہ ابرہہ کے نر غے میں آچکے ہیں ۔ کویت، عراق ، سعو دی عرب ، قطر ، بحرین، ا ور متحدہ عرب امارات کے کسی فو جی اڈے سے ابرہہ اپنی فوج کو حرکت دے سکتا ہے ۔571 ء میں ابرہہ کے پاس 13 ہا تھی تھے ۔اب ابرہہ کے پاس ایف۔16 ، ایواکس اور بی ۔52 طیارے ہیں ۔ڈرون ٹیکنا لوجی ہے ۔ایٹم بم اور ہا ئیڈوجن بم ہے۔ مو آب ( Moab) اورڈیزی کٹر نا می بم ہیں ۔آج کا ابرہہ 571 ء کے ابرہہ سے زیا دہ طا قتور ہے۔ مگر آج بیت اللہ شریف کا مجا ور عبدالمطلب کی طرح غیرت مند نہیں ہے ۔عبدالمطلب نے عرفات کی پہا ڑوں کے پیچھے ابرہہ سے ملا قات کر کے اس کے سامنے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ رکھا ۔ابرہہ نے کہا تم خدا کے گھر کی با ت نہیں کر تے اور اپنے اونٹوں کاذکر لئے بیٹھے ہو ؟ عبد المطلب نے کہا بیت اللہ جس کا گھر ہے اُس کی حفا ظت وہ خود کرے گا ۔چناچہ اللہ پاک نے پرندوں کے چو نچ سے کنکریاں مارکر ابرہہ اور اس کے لشکر اور ہاتھیوں کو ہلاک کر دیا ۔ عبدالمطلب کو خدا کی ذات پر بھروسہ تھا۔ آج کعبہ کے مجاوروں کو امریکہ کی طاقت پر بھروسہ ہے ۔سعودی عرب اور ایران کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عرب اور عجم کی قدیم دشمنی ہے۔ مو جود ہ دور میں اگرچہ با قی دنیا بیدار ہو چکی ہے ۔عرب میں جہالت کے دور کی دشمنیاں مو جود ہیں ۔عرب دنیا علم کی روشنی سے اب تک محروم ہے ۔سعودی عرب اور ایران کا تیسرا مسئلہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ دوستی یا دو شمنی کا مسئلہ ہے ۔عرب دو ستی کا قائل ہے۔ ایران دشمنی کی راہ پر گا مزن ہے۔ اور چوتھا مسئلہ سنی شیعہ کا جھگڑا ہے۔ اس کو امریکہ اور اسرائیل نے ہو ا دی ہے ۔کیو نکہ اس جھگڑے کو طول دینا دشمن کے مفاد میں ہے ۔شام اور یمن کی موجود ہ جنگیں اس وجہ سے لڑی جا رہی ہیں۔ اگر امریکہ نے شام اور یمن پر قبضہ کیا تو عرب دنیا میں لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ اکیلی رہ جائے گی۔یہ تنظیم فلسطینی مہا جر ین نے بنائی ہے۔ ایران،شام اور یمن کے لوگ حزب اللہ کی مدد کر رہے ہیں ان تمام جھگڑوں میں سعودی عرب وہی کردار ادا کرہا ہے ۔جو ایرانی انقلاب سے پہلے رضا شاہ پہلوی ادا کر رہا تھا ۔وقت گزرنے کے ساتھ سعودی عرب کے اندر امریکہ کے خلا ف لو گوں کے جذبات زبان اور قلم کی نوک پر آرہے ہیں۔ شاہی خاندان کے اندر بھی جن شہزادوں کی تعلیم امریکہ میں نہیں ہو ئی وہ امریکی پا لیسیوں کو پسند نہیں کر تے ۔ ایران ،تیونس اور مصر طرز کے انقلاب کی با تیں سعودی عرب میں بھی شروع ہو گئی ہیں اور خطے میں خاندان آل سعود کے زوال کے بعد امریکہ کے نئے اتحادی ہو نے کی امید وار قوموں کا نام لیا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں پہلا نام بھارت کا ہے ۔اندازہ ہے کہ آل سعود کا کردار بھارت ادا کرے گا ۔کیونکہ چین کے خلاف معاندانہ عزائم اور اسرائیل کے ساتھ پکی دوستی بھارت کو امریکہ کا قدرتی حلیف بناتی ہے ۔ادھر ترکی بھی اُمید وار ہے کہ سعودی عرب کا کردار ترکی کو ملے گا ۔ترکی نے لیبیا ، عراق اور شام کے خلاف جنگی کا روائیوں میں سعودی عرب سے بڑھ کر امریکہ کی مدد کی ہے ۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا خیال ہے کہ مستقبل میں 1980 ء کی دہائی کی طر ح امریکہ کے حلیف نمبر ایک کا کردار پا کستان کو ملنا چا ہیے۔پا کستان نے افغان خانہ جنگی میں امریکہ کا ساتھ دیا ۔نیز پاکستان ایک ایٹمی طا قت ہے۔ اس فوج کو ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے ترک فوج پر سبقت اور بر تری حاصل ہے ۔چنا چہ سعودی خاندان کے بعد امریکہ کا اتحادی اور فرنٹ مین بننے کے لئے خاموش مقابلہ جاری ہے ۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورے کے نتیجے میں اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کر نے میں مدد ملی تو پا کستان ایک مضبوط اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے گا ۔ ابرہہ کے لشکر کے ساتھ ایران کا معاہدہ ویسے بھی طے پا گیا ہے ۔اس طرح پُر امن بقا ئے با ہمی کا خواب ابرہہ کے پر چم تلے شرمندہ تعبیر ہو گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔