نوائے دل …..حیاوپاکدامنی

کوئی فحش گناہ آلودہ یاناپسندیدہ کام یابات کرنے کے خیال سے دل میں جو جھجک ،تامل اوربے چینی پیداہوتی ہے اسے حیاکہتے ہیں ۔ یہ حیابرائیوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ براکام کرناتو درکنار محض اس کے خیال سے ہی دل کے اندر احتجاج پیداہوتاہے ۔ یہ احتجاج جس قدر ہوگا۔ حیااتنی ہوگی ۔ اوراس حیاکاکسی کے دل پر جتنا قابو ہوگاوہ شخص برائیوں سے اسی قدر محفوظ ہوگا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کاارشاد ہے :اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُبِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ(النحل )ترجمہ : بے شک اللہ عدل واحسان کاحکم دیتاہے ۔ اوربے حیائی اوربرے کاموں سے روکتاہے ۔دنیاکے دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ اس نے حیاکو ایمان کاجز قراردیاہے ۔’’ایمان کی ساٹھ سے اوپر کچھ شاخیں ہیں اورحیابھی ایمان کی شاخ ہے ‘‘(بخاری)۔اس طرح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق اگلی نبوت کی باتوں کے مد میں سے لوگوں نے جو کچھ پایاہے اس میں ایک مقولہ یہ بھی ہے ۔ ’’جب تم میں شرم وحیانہ ہوتو جو جی چاہے کرو‘‘(بخاری)۔اسی طرح حدیث شریف میں حیاء کو ایمان کاحصہ قرار دیاگیاہے ’’الحیاء شعبۃ من الایمان ‘‘(حیاء ایمان کاحصہ ہے )ان احادیث مبارکہ اورآیت قرآنی سے ہمیں یہ سمجھ آتی ہے ایمان جو فی الحقیقت خداپر اوراس کی بتائی ہوئی چند باتوں پر جوغیب سے تعلق رکھتی ہیں ،کانام ہے ۔ لیکن اس ایمان کو پانے کے لئے جو چیز ضروری ہے وہ ہے ’’حیااورشرم‘‘ یہ ایک سادہ سالفظ ہے جس کامطلب ہے کہ انسان دل میں کسی برے اورخلاف فطرت کام کے لئے جھجک کامادہ رکھتاہے ۔ البتہ اس کادینی مفہوم بہت گہرااوردیرپااثر رکھنے والی ہے ۔ عورت کی زندگی میں اس اخلاقی خوبی کی بڑی اہمیت ہے ۔ اگر چہ اسلام نے مرد اورعورت دونوں کے ایمان کاجز حیاکو قراردیاہے اوردونوں کو ہی یہ بات بتائی گئی کہ ’’اللہ بے حیائی اوربرے کاموں سے روکتاہے ‘‘(سورۃ النحل )لیکن عورت کی زندگی میں اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ وصف اس کی فطری مزاج سے قریب ہے ۔ عورت کے معنی ’’چھپی ہوئی چیز ‘‘کے ہیں ۔ عورت کایہ فطری وصف معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے ۔ اسی لئے اگر مشرق میں اسے ’’مشرقیت ‘‘سے موسوم کیاجاتاہے تو مغرب میں shy.girlکاکردار اسی حوالے سے معتبر جاناجاتاہے ۔عورت کی زندگی میں اس کاجو مقام ہے اس کو زیادہ بہتر ہر عورت خود محسوس کرسکتی ہے لیکن معاشرے کے عروج وزوال کے ادوار کاجائزہ بھی یہ بات واضح کرتاہے کہ عورت کو جب بھی کسی معاشرے نے فطرت کے خلاف چلاکر استحصال کیاتو وہ معاشرہ ضرورزوال کاشکار ہوا۔ خواہ اسے دنیاوالوں نے مہذب اورترقی یافتہ معاشرہ ہی جاناہو۔ اسلام معاشرے میں نیکی اوربھلائی کو پھیلاناچاہتاہے اوربے حیائی اوربری باتوں سے پاک رکھناچاہتاہے ۔ بے حیائی شیطان کی اکساہٹ کانتیجہ ہوتی ہے جو انسان کو تیزی سے برائی کے راستے پر دوڑاتی ہے ۔ یہ شیطان کاوہ ابتدائی حربہ ہے اگر کامیاب ہوجائے تو شیطان اکو کھل کر کھیلنے کاموقع مل جاتاہے ۔اورجس انسان پر اس کاحربہ کامیاب ہوجاتاہے اس کی آنکھیں دن کی روشنی میں بھی ایسی بند ہوتی ہیں کہ آنکھوں دیکھتی بھلائی اورحقیقت انہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوانے کے لئے جو بھی حربہ اختیار کیاتھاوہ اسی راستے سے گزرتاتھا۔اس نے ایک ممنوع درخت کاپھل کھانے کی ترغیب دلائی جس سے ان کے ستر کھل گئے اوروہ اپنے اس فعل پر وہ اورنادم ہوکر اللہ کی طرف لوٹے ۔مغربی معاشرہ اس ایمانی وصف سے محرومیت کی کھلی دلیل ہے ۔ آئے دن اخبارات میں عریاں تصاویر ،بے ہودہ پوسٹر ، فلمی اشتہارات وغیرہ ان سب باتوں میں کافی آگے نکل چکی ہے ۔ان کی انفرادی زندگیوں میں عورت کو بے باکی کرنے کے لئے ایک موثر ہتھیار کے طورپر اس معاشرے نے تسلیم کیاہے ۔ یہ تنگ نظری سے کیاجانے والاتجزیہ بلکہ تجربے کی روشنی میں اس تجزئیے کے عناصر کو پرکھاگیاہے ۔ نتائج کااپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد اسے درست سمجھاجارہاہے ۔ اسلام دراصل اسی نتیجے سے مسلمان عورت کو دور رکھناچاہتاہے اورمسلمان عورت کو ان گوشوں میں بھی ’’حیا‘‘کی ترغیب دلاتاہے جن کاتعلق بالکل انفرادی زندگی سے ہوتاہے کہ مسلمان عورت کے خمیر میں فطری ’’حیا‘‘غالب رنگ لیے ہوئے ہو۔ خوشی وغمی میں بھی کبھی حیاکو پامال نہ ہونے دیں ۔ خواہ آپ کے اپنے گھر میں کوئی تقریب ہویاخدانخواستہ غم کاکوئی موقع ۔ایک واقعہ پیش نظر ہے اس کے تحت آپ اپناتعین کرسکتی ہیں ۔ایک خاتون ام خلاد کالڑکاایک جنگ میں شہید ہوگیاتھاوہ اس کے متعلق دریافت کرنے کے لئے نبی ﷺکے پاس آئیں مگر اس حال میں چہرے پر نقاب پڑاہواتھابعض صحابہ نے حیرت سے کہااس وقت بھی تمہارے چہرے پر نقاب ہے ؟(یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کاہوش نہیں رہتااورتم اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی ہو)۔ جواب میں کہنے لگیں ’’میں نے بیٹے کو کھویاہے مگراپنی حیاتو نہیں کھودی ‘‘۔ محترم نعیم صدیقی صاحب اپنی کتاب ’’عورت معرض کش مکش میں ‘‘لکھتے ہیں :’’جذبہ حیادرحقیقت انفرادی اورقومی اخلاق کاپاسبان ہے اورضمیر کی اصل قوت اس جذبے سے بنتی ہے ۔کسی غلط حرکت ، کسی بے جااقدام اورکسی لغوگوئی کے راستے میں یہی جذبہ حیاسے جو روک بنتاہے ۔ یہی ہے جو آپ میں تامل پیداکرتاہے ، ٹھٹھک پیداکرتاہے ، احساس ذمہ داری کو ابھارتاہے یعنی ’’حیا‘‘کامیدان عمل صرف جنسی تقاضوں کادائرہ نہیں بلکہ ساری اخلاقی زندگی میں اس کادخل ہے ۔ یہ نام ہے اس روک کو جو فطرتاانسان میں برائی اورظلم اورتہذیب سے گری ہوئی حرکات کے لئے کسی نہ کسی درجے میں پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ اسلامی نظام فکر اسی لئے حیاکو ایمان کاشعبہ قرار دیتاہے ۔‘‘

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔