صدا بصحرا ….. ن لیگ اور خیبر پختونخوا

………ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ…….
سردارمہتاب احمد خان کی طرف سے گورنر سرحد کے عہدے سے استعفیٰ کے بعد چہ مگوئیاں بہت ہوئیں۔ جو اہم بات کہی گئی وہ یہ تھی کہ سردار مہتاب انتخابی سیاست میں فعال کردار اداکرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے آئینی عہدے سے ان کا استعفیٰ دینا ضروری تھا۔ یہ قانونی تقاضا تھا۔ انتخابی سیاست کے حوالے سے کئی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ سب سے بڑی افواہ یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف خیبر پختونخوا میں ن لیگ کو آئندہ الیکشن کے بعد حکومت بنانے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ اس لئے سردار مہتاب احمد خان کو اہم ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ سردار مہتاب احمد خان 1996ء سے 1999ء تک صوبے کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں ان کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ صوبے کے اندر تین اہم جماعتوں کے ساتھ ان کی بڑی اچھی شناسائی ہے۔ عوام میں ان کی شہرت بے داغ سیاست دان کی ہے۔ لیکن ان کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ ن لیگ کی وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا کے لئے کبھی کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ عوام میں ن لیگ کو پنجابی شاونزم کا نمائیندہ خیال کیا جاتا ہے اور پولنگ سٹیشنوں میں ن لیگ کے امیدوار کو وہ پزیرائی نہیں ملتی جو پنجاب کے دیہات اور شہروں میں ملتی ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ن لیگ کا نیا چہرہ سامنے لانے کی ضرورت ہے اور میاں نواز شریف کی شخصیت کو بھٹو شہید، عبد الولی خان اور مولانا مفتی محمود کی طرح کرشماتی شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جو بہت مشکل کام ہے۔ بین الاقوامی عوامل اور ملکی سطح پر کام کرنے والے خفیہ اداروں نے خیبر پختونخوا کو بلوچستان کی طرح سیاسی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ہے تاکہ اس بد قسمت صوبے کو مقبول جماعت کی حکومت نصیب نہ ہو۔ ایک بڑا حصہ مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔ دوسرا بڑا حصہ اسفند یارولی خان کے پاس ہے۔ بھٹو شہید کے ووٹ بینک کو توڑنے کے بعد بھی پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کی اہم سیاسی جماعت کے طور پر موجود ہے۔ جماعت اسلامی کو ملاکنڈ ڈویژن کے 4اضلاع میں انتخابی طاقت کا درجہ حاصل ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں مختصر مدت کے لئے پی ٹی آئی کو لایا گیا تھا۔ اگر یہ جماعت حکومت میں نہ آتی تو آئندہ کے لئے چند اضلاع میں انتخابی طاقت حاصل کر سکتی تھی۔ مگر حکومت کے ناکام تجربے کے بعد مستقبل کے کسی اہم کردار سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ قومی وطن پارٹی صوبے کی اہم سیاسی جماعت ہے۔ پارٹی کے پس منظر میں شیر پاؤ خاندان کی شاندار عوامی اور قومی خدمات ہیں۔ اس منظر نامے کے اندر دو اہم تبدیلیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والی ملکی ایجنسیوں نے نظریاتی سیاست کو دفن کر دیا ہے۔ مزدور تحریک کے ساتھ ترقی پسند سیاسی سوچ اور بائیں بازو کے سیاسی نعروں کی جدوجہد بھی دم توڑ چکی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے دائیں بازو کی سیاست کو جو عارضی طاقت دی تھی وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ نظام مصطفی، نفاذ شریعت اور اعلا کلمتہ الحق کا نعرہ لگانے والی قوتیں اپنی شناخت سے محروم ہو چکی ہیں۔ جمعیت العلمائے اسلام کے اندر دو دھڑوں میں پکی دشمنی آچکی ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ ان کی دشمنی بہت بڑی خلیج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ فرقہ ورانہ اختلافات ذاتی دشمنیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب 1977ء کی طرح دائیں بازو کی قوتوں کا یکجا ہونا محال نظر آتا ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ سیاست میں پارٹی منشور کی جگہ سرمایہ نے لے لی ہے۔ اب منشور کا کوئی مقام نہیں رہا۔ اصل بات یہ ہے کہ کون کتنا سرمایہ لگا سکتا ہے۔ سرمایے کی دوڑ اور مسابقت نے سیاسی جدوجہد کو بے معنی بنا دیا ہے اور انتخابات میں کامیابی کی کنجی ان لوگوں کے ہاتھ آتی ہے جو اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں۔ پہلا چیلنج یہ ہے کہ اپنے آپکو پنجابی شاونزم کے علم بردار کی جگہ قومی سطح کی پارٹی ثابت کرے۔ خیبر پختونخوا کے عوام کو عملی اقدامات کے ذریعے باور کرائے کہ مسلم لیگ (ن) پر صوبائی عصبیت کی چھاپ لگانا غلط ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے اندر پارٹی رہنماؤں کے ذاتی اختلافات کو ختم کر کے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر ے۔ اس وقت پیر صابر شاہ اور امیر مقام کے الگ الگ گروپ ہیں۔ سردار محمد یوسف اور سردار مہتاب کے الگ الگ گروپ ہیں۔ وزیر اعظم کے داماد کیپٹن صفدر کا گروپ الگ ہے اور سب سے زیادہ طاقتور ہونے کی شہرت رکھتا ہے۔ اس گروہ بندی کو ختم کئے بغیر ن لیگ کو خیبر پختونخوا کی مقبول جماعتوں مثلاً جمعیت العلمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی اور عارضی طور پر ابھرنے والی جماعت پی ٹی آئی کے مقابلے میں فعال بنانا بہت مشکل ہوگا۔ عالمی طاقتوں اور ملکی ایجنسیوں کی نظر میں اب بھی خیبر پختونخوا کو بلوچستان جیسی اہمیت حاصل ہے۔ یہ جماعتیں صوبے کے اندر کسی ایک جماعت کو مقبول دیکھنا کبھی پسند نہیں کریں گے۔ اس لئے منقسم مینڈیٹ، کمزور اسمبلی اور ناکام صوبائی حکومت آئندہ بھی ہمارے مقدر میں لکھی جائے گی۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔