صدا بصحرا…….مردم شماری کا التواء

……ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ……

خبر آئی ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے مردم شماری کوموخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔فیصلہ میں نئی تاریخ نہیں دی گئی اس وجہ سے اس کو غیر معینہ مدت سمجھا جارہا ہے۔ وطن عزیز میں آخری بار مردم شمار ی مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت میں 1998 ؁ ء میں کرائی گئی تھی اور یہ مردم شماری 7سال کی تاخیر کے بعد کرائی گئی تھی۔ اس سے پہلے 1981ء میں مردم شماری ہوئی تھی۔ اس وقت میا ں نوازشریف پنجاب کے وزیر خزانہ تھے اور حکومت کا حصہ تھے۔ قانون کے تحت ہر 10سال بعد ملک میں مردم شماری ہونی چاہئیے۔ مہذ ب اور جمہوری ملکوں میں اس کا اہتمام باقاعدگی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کی جو لہر پائی جاتی ہے اس کو بنیا د بنا کر مردم شماری کو موخر کیا گیا ہے۔اگر مارچ 1998 ء میں پروگرام کے مطابق مردم شماری ہوتی تو 18 سال بعد مردم شماری ہونے والی تھی۔2008 ء میں مردم شماری نہ ہوسکی۔ اس کے بعد 5بار مردم شماری کو ملتوی کیا گیا۔ یہ چھٹی بار مردم شماری کا التواء ہے۔ مشترکہ مفادا ت کی کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزراء اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں مردم شماری کے التواء کی اصل وجوہات کو پردہ راز میں رکھا گیا۔ ظاہر ی پریس ریلیز میں جو وجہ بتائی گئی وہ یہ تھی کہ مردم شماری کیلئے فوج کی مدد درکا ر ہے۔ پاک فوج اس وقت دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے اور اپنے جوانو ں کی بڑی تعدادکو مردم شماری کیلئے فارغ نہیں کر سکتی اس لئے پریس ریلیز میں بلوچستان کے حالات کا خصوصی حوالہ دیا گیا۔ حالانکہ مردم شماری کے حوالے سے مسئلہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں درپیش ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کی سیاسی جماعتیں مردم شماری کو ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔دونوں جگہوں پر اس حوالے سے تشویشناک نوعیت کے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہر کام فوج کے ذریعے کیوں کراتے ہیں ؟ ہماری سول ایڈمنسٹریشن ، ہماری پولیس ، ہمارے سول آرمڈ فورسز ، ملیشیاء وغیرہ کیوں ان کاموں میں مدد نہیں دیتے ؟ وفاقی حکومت کے شماریات ڈویژن کے پا س مردم شماری کا بلیو پرنٹ کیوں نہیں ہے ؟ شماریات ڈویژن کو صوبائی حکومتوں ، ضلعی انتظامیہ اور لائین ڈیپارٹمنٹس کا تعاون کیوں حاصل نہیں؟1951 ء کی مردم شماری فوج نے نہیں کرائی تھی۔ 1961 ء اور 1981ء میں بھی مردم شماری کا کام فوج سے نہیں لیا گیا۔انگریزوں کے زمانے میں مردم شماری ہوتی تھی ۔ اُس زمانے میں فوج کو استعمال کرنے کا دستور نہیں تھا۔ مردم شماری سول انتظامیہ کا کام تھا۔ صوبے کا چیف سکریٹری ، ڈویژن کا کمشنر اور ضلع کا ڈپٹی کمشنر بااختیار ہوتا تھا۔ وہ مردم شماری کا ذمہ دار ہو تا تھا۔ دراصل سول انتظامیہ کو علم ہے کہ مردم شماری کی کیا اہمیت ہے ؟ سول انتظامیہ ترقیاتی عمل کی منصوبہ بندی میں مردم شماری سے مدد لیتی ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھتی ہے۔ مردوں کو اور عورتوں کی آبادی اور سماجی بہبود کی دیگر سہولیات اس تناسب سے فراہم کرتی ہے۔ ایک سالہ ، 5سالہ اور 10سالہ منصوبہ بندی میں ان تازہ اعداد و شمار سے کام لیتی ہے۔ بدقسمتی سے ترقیاتی منصوبہ بندی کا سارا کام بیورہ کریسی سے واپس لیکر سیاسی لیڈروں کو دیا گیا ہے۔ ترقیاتی فنڈ قومی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر خرچ کئے جاتے ہیں۔ لیڈروں کو بجٹ بنانے یا خرچ کرنے کیلئے ملکی آبادی کے اعداد وشمار سے زیادہ اپنے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس لئے ان کو مردم شماری کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ان کو مردم شماری سے کوئی غرض ہی نہیں۔ تھر کے صحر ا میں وبائی امراض کیوں پھیلتی ہیں ؟ خیبر پختوانخواہ میں ایچ آئی وی ایڈز اور پولیو کے کیسز سب سے زیادہ کیوں ہیں ؟ ایبٹ آباد اور ہری پور میں شرح خواندگی پشاور سے زیادہ کیوں ہے ؟ یہ اعداد و شمار بیورکریٹس کے کام آتے تھے۔ سیاسی لیڈروں کا ان اعداد وشمار سے کوئی سروکار نہیں۔ سیاسی لیڈروں کی مثال مرغی ہے وہ مرغی کی طرح سامنے دانہ دیکھتا ہے تو اُس پر جھپٹتاہے۔ آگے دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ ہمارے سیاسی نظام کو مکمل اورہالنگ کی ضرورت ہے۔ ہمارے اسمبلیوں میں جانے والے ، وزارتوں پر فائز ہونے والے نمائندے اکثر یت کی جگہ اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔چار لاکھ ووٹروں کے حلقے میں ایک لاکھ ووٹ لینے والا کامیاب ہوتا ہے۔ 80ہزار ووٹرووں کے حلقے میں 12ہزار ووٹ لینے والا کامیاب ہوتا ہے۔ وہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کس طرح کرسکتا ہے ؟ مردم شماری کا کام چھٹی بار ملتوی کرانے والوں میں بیوروکریسی ، فوج اور عدلیہ کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ انگریزوں کا ایک مقولہ ہے کہ جنگ سنجیدہ کام ہے یہ کا م فوجیوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح سیاست بھی سنجیدہ کام ہے۔ یہ کام پاکستان لیڈروں کے حوالے کرنا مناسب نہیں۔ مردم شماری کا فیصلہ سول ایڈمنسٹریشن اور بیوروکریٹس کو کرنا چاہئیے۔ یہ کام اگر سیاستدانوں پر چھوڑ دیاگیا تو 20سالوں میں بھی مردم شماری نہیں ہوگی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔