داد بیداد….گلشن اقبال پر حملہ کے بعد

…..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ……

29مارچ کے اخبارات میں گلشن اقبال لا ہور کے پارک پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت کے بیا نات اور اقدامات کی خبریں آئی ہیں ۔ان خبروں کو اگر 28تاریخ کے اخبارات اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے تو دونوں کے اندر پیش آنے والے واقعات پر ہماری قیادت کا ردعمل مایوس کن لگتا ہے ۔گلشن اقبال پر دشمن کا حملہ ہو یا اسلام آباد کے میٹروبس پر حملہ یا پارلیمنٹ پر حملہ ہو،دونوں کو پاکستان پر حملہ تصور کیا جاتا ہے ۔پاکستان دراصل علامہ اقبال کا گلشن ہے اور پارلیمنٹ اس گلشن کے اقتدار کی علامت ہے ۔اسی روز کراچی پر یس کلب پر بھی دشمنوں نے حملہ کیا تھا ۔اس کی خبریں زیادہ نمایاں نہیں ہو ئیں ۔اسلام آباد ائیرپورٹ کے اندر جنید جمشید پر بھی حملہ ہوا تھا ۔اس کو زیادہ کو ریج نہیں ملی ۔گلشن اقبال پارک پر حملے میں 72بے گناہ پاکستانیوں کی شہادت واقع ہو ئی ۔300سے زیادہ زخمی ہو ئے ۔اس دن ایسٹر کا تہوار تھا اور اتوار کا دن تھا ۔پارک میں زیادہ تر خواتین اور بچے ، بچیاں تھیں ۔دشمن نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔مسیحی بھائیوں کے تہوار کو بھی نشانہ بنایا ۔پاکستان کی سا لمیت پر بھی وار کیا ۔دشمن نے اس حملے پر دوچار کروڑ روپے خرچ کئے ۔دہشت گرد تنظیم کو پیسہ دیا ۔سہولت کاروں کو مزدوری دی اور حملہ آوروں کو مزدوری دی ۔اب قانون سے ان کو بچانے کے لئے پیسے خرچ کر ے گا اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمے کو کمزور کر کے ان کو عدالتوں سے باعزت بری کروائیگا ۔دشمن یہ کام گزشتہ 38 سالوں سے کر رہا ہے۔ 1978ء میں دشمن پاکستان کے اندر داخل ہوا ہے اور اب تک ہماری صفوں میں چھپا ہوا ہے۔ 38سالوں میں صرف ایک دن ایسا آیا جب ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ایک جگہ بیٹھ گئی۔ متفقہ فیصلے ہو ئے اور قومی لائحہ عمل بنایا گیا ۔یہ 16دسمبر 2014 ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دشمن کے حملے کے بعد ہوا تھا جب جمعیت العلمائے اسلام ،پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ، قومی وطن پارٹی ، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق)، فنکشنل لیگ ، پختو نخوا ملی عوامی پارٹی نے ملکر حکومت کاساتھ دیا تھا اور قوم کی سیاسی قیادت دشمن کے مقابلے میں پاکستان کی سا لمیت کے تحفظ کے لئے یکجا ہو ئی تھی۔ مگر حکومت نے متفقہ قومی لائحہ عمل پر عمل نہیں کیا ۔نیکٹا کو فعال ہو نے نہیں دیا ۔عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے ہنگامی بنیادوں پر نہیں ہو ئے ۔ اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد کی تمیز ختم نہیں ہو ئی۔ اچھا دشمن اور برا دشمن کا فرق نہیں مٹایا گیا ۔اس کے بعد قوم پھریکجا نہیں ہو ئی ۔ لاہور اور اسلام آباد کے واقعات کے بعد مسلم لیگ (ن ) اکیلی نظر آئی ہے ۔کسی بھی سیاسی جماعت نے میٹروبس سٹیشنوں پر توڑ پھوڑ اور پارلیمنٹ ہاوس پر حملے کی مذمت نہیں کیا ۔کسی قابل ذکر سیاسی جماعت نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے قوم سے خطاب کو نہیں سراہا ۔کسی اہم سیاسی جماعت کے لیڈر نے گلشن اقبال پارک پر حملے کے بعد دشمن کے خلاف حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا ۔ اگر مگر اور چنین چناں کے ساتھ تمام لیڈروں نے حکومت پر تنقید کی ۔اخبارات کے جن قارئین نے حکومت پر تنقید کی ۔اخبارات کے جن قارئین کو مارچ 1971 ء سے دسمبر 1971 ء تک مشرقی پاکستان میں پاک فوج اور بھارتی فوج کی جنگ یاد ہے وہ لوگ جانتے ہیں کہ آج سے 45سال پہلے صرف ایک سیاسی جماعت عوامی لیگ دشمن کے ساتھ کھڑی تھی۔ آج دشن کے خلاف کاروائی کو صرف حزب اقتدار یعنی حکومتی پارٹی کا در دسر قرار دیا جارہا ہے ۔ اور دشمن اس پر بہت خوش ہے کہ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتیں پارٹی مفادات کو ملکی مفادات سے مقدم اور بالا تر سمجھتی ہیں ۔حکومت کے خلاف وہ کسی بھی دشمن کا ساتھ دینے کو عار نہیں سمجھتیں ۔وطن عزیز میں جب بھی فوجی حکومت میںآئی ہے ۔سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر سواری کر کے آئی ہے اور ایسے وقت پر آئی ہے ۔جب ملکی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو ئے ہیں ۔گلشن اقبال پر حملے ، میٹرو سٹیشنوں پر توڑ پھوڑ اور کراچی پریس کلب پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ذاتی اختلافات اور مخصوص مفادات کو بھلا کر دشمن کے خلاف یکجا ہو جانا چاہیے تھا ۔ہمارے ہاں آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم کو بھی عزت نہیں دی گئی ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بھی کو ئی وقعت نہیں ملی ۔پارلیمنٹ کے ان کیمرہ سیشن کا بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔جو فورم سب سے موثر ثابت ہو ا ہے وہ صرف کورکمانڈ رز کانفرنس ہے۔ وزیر اعظم کو کور کمانڈر ز کا نفرنس بلا کر قومی سلامتی کے حوالے سے سیاسی اور جمہوری قیادت کا موقف عسکری قیادت کے سامنے رکھنا چاہیے ۔تاریخ میں پہلا موقع ہو گا کہ وزیر اعظم کورکمانڈر ز کانفرنس میں شریک ہو کر اپنی رائے سے عسکری قیادت کو آگاہ کرینگے۔نظم ونسق کی اصطلاح میں اس کو “آوٹ آف دی باکس سلوشن “کہتے ہیں ۔غیر معمولی حالات میں اس طرح کے غیر معمولی حل تجویز کئے جاسکتے ہیں ۔اگر سیاسی جماعتوں کو یہ منظور نہیں تو پھر سیاسی جماعتیں اس پرغور کریں کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہمارے دشمن کو پسند ہو گی۔ اگر دشمن کے پسند اور دہشت گردوں کی مرضی سے حکومت لانی ہے تو پھر جمہوریت کی لاش کو کندھے پر اٹھا کر گلی گلی گھومنے کی کیا ضرورت ہے ؟پاکستان کی تاریخ میں جب بھی ایسا نازک موڑ آیا ہے ۔ سیاستدنوں نے قوم کو مایوس کیا ہے ۔ پاکستان علامہ اقبال کا گلشن ہے اور لاہور میں گلشن اقبال پارک پر دشمن کا حملہ پاکستان پر حملہ ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔