داد بیداد ….زین العابد ین مرحوم

……ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ…….

پاکستان پیپلز پارٹی چترال کے سابق صدر اور سابق ممبر صوبائی اسمبلی زین العا بدینIMG-20160207-WA0011-2-1 کی وفات نے خیبر پختو نخوا کی سیاسی اور سماجی فضاء کو ایک شریف ، ملنسار اور مہذب سیا ستدان سے محروم کر دیا ہے ۔وہ مو جود ہ دور میں قدیم تہذیب کی یا دگار گنے جاتے تھے ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
زین العابدین مرحوم 1993ء کے انتخابات میں چترال سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو ئے ۔ارکان اسمبلی میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے رکن تھے ۔پیر صابر شاہ نے حکومت بنائی تو وہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے ساتھ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ گئے ۔تھو ڑے ہی عرصے میں پیر صابر شاہ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آگئی اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ صوبے کے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔زین العابدین مرحوم حزب اقتدار کا حصہ بن گئے ۔ دو بار ان کا نام کا بینہ کے لئے زیر غور آیا ۔لیکن چترال سے واحد رکن اسمبلی تھے ۔ان کی لابی نہیں تھی ۔اس لئے کا بینہ میں جگہ نہیں ملی ۔انہیں اس کا کوئی افسو س نہیں ہو ا ۔ایوان میں انہوں نے پارلیمانی پارٹی کا بھر پور ساتھ دیااور چترال کے عوامی مسائل ، صوبے کی مجموعی ترقی ، امن عامہ اور ملکی سلامتی کے لئے آواز بلند کی ۔ایم پی اے ہاسٹل میں اُن کا کمرہ ایک دفتر کا منظر پیش کرتا تھا ۔میزوں پر فائلیں سلیقے سے رکھی ہو تی تھیں ۔یہ اخبارات کے تراشوں کا ریکارڈ ہے۔ یہ اسمبلی کی کاروائی کا ریکارڈ ہے ۔موٹی موٹی کتابیں ہیں ۔اُن کے اپنے سوالات ،تحاریک التوا ،اور دیگر مو شنزکی فائل رکھی ہے ۔قومی تعمیر کے محکموں کی الگ الگ فائلیں ہیں ۔سال گزشتہ کے تر قیاتی پروگرام کی فائل الگ ہے ۔نئے سال کے ترقیاتی پروگرام کی فائل کے اندر کا عذات سلیقے سے رکھے ہیں ۔ٹیگ باقا عدہ تر تیب سے لگے ہو ئے ہیں ۔ان کا فوجی پس منظر ان کو ہر حال میں ڈسپلن رکھنے پر مجبور کرتا تھا۔کسی بھی ریکارڈ کی ضرورت ہو تی تو وہ فورا ڈھو نڈ نکالتے تھے۔ ہر کا عذ کی سپیر کا پی رکھتے تھے ۔وہ اردو اور انگر یزی دونوں زبانوں میں خوب صورت ڈرافٹ لکھتے تھے ۔اس میں ہر منصوبہ اور ہر مسئلے کا پس منظر ،جواز اور متعلقہ دلائل کو خاص ترتیب سے سرکاری آفیسر کے ورکنگ پیپر یا سمری کی طرح لکھا کر تے تھے اور جابجا حوالہ جات سے بھی کا م لیتے تھے ۔ مجلس قانون ساز کی رکنیت ان کی شخصیت پر خوب جچتی تھی ۔ان کے دور میں چترال سے قومی اسمبلی کی نشست پر جماعت اسلامی کے مولانا عبد الرحیم چترالی مرحوم کا میاب ہو ئے تھے ۔دونوں کے درمیان بہترین تعلقات کار آخر دم تک استوار رہے ۔
زین العابدین مرحوم کی شخصیت کے اندر جوکشش ،مٹھاس ،محبت اور تواضع تھی ۔وہ ان کو ورثے میں ملی ۔تھی ۔ان کا خاندان چترال کے آخری حکمران خاندان کی ایک شاخ محمد بیگے سے تعلق رکھتا ہے ۔ان کے والد شرف الدین برٹش گو رنمنٹ کے ملیشیا چترال سکاوٹس میں کو ارٹر ماسٹر اور ریاستی باڈی گارڈ میں لیفٹنٹ کا عہدہ رکھتے تھے ۔ریاستی جو ڈیشنل کو نسل کے ممبر تھے ۔ان کا گھرانہ ایسا گھرانہ ہے ۔جو لکھنو والی تہذیب “پہلے آپ ،پہلے آپ” کی پاسداری کے لئے شہرت رکھتا ہے ۔لیفٹنٹ شرف الدین کی زندگی میں گھر کے تمام افراد مر د و زن ہر صبح ابا حضور کی خدمت میں سلام واداب عرض کر نے کے لئے قطار میں کھڑے ہو تے ۔باقا عدہ کو رنشں اور آداب بجا لاتے ہو ئے ابا حضور کی مزاج پر سی کر تے۔ والد گرامی کی وفات کے بعد یہ منصب زین العابدین مرحوم کو ملا۔ ایک سماجی تقریب میں زین العابدین مہمان خصوصی تھے ۔ان کے بھتیجے صدر الدین کمپیئرنگ کر رہے تھے ۔اباجی کا نام لیتے ہو ئے، ان کو تقریر کی دعوت دیتے ہو ئے فرط محبت اور فرط جذبات سے آبدیدہ ہو ئے اور اُن کی زبان اٹک گئی ۔ گھرانے کے اندر باہمی محبت ومودت کی یہ کیفیت آج کل کے زمانے میں کہاں ملتی ہے ۔
زین العابدین مرحوم 1932 ء میں چترال کے خوب صورت گاؤں موردیر میں پیدا ہو ئے ۔ابتدائی تعلیم ہائی سکول دروش سے حاصل کی جہاں ان کے والد گرامی سروس کرتے تھے ۔چترال سکاوٹس سے بحیثیت جو نیر کمیشنڈ آفیسر ریٹا ئر ہو ئے ۔تعلیمی قابلیت کی وجہ سے بابو صوبیدار کے نام سے پہچانے جاتے تھے ۔ریٹا ئر منٹ کے بعد فلاحی ،سماجی اوررفاہی کا مو ں میں حصہ لیا ۔سیاسی میدان میں اول روز سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ رہے ۔1979ء کے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن میں بلا مقا بلہ ضلع کو نسل کے ممبر منتحب ہو گئے ۔مگر چیئر مین ضلع کو نسل کے انتخا ب میں الحاج خورشید علی کے مقابلے میں ایک ووٹ سے ہارگئے ۔اس ووٹ کا قصہ بہت دلچسپ ہے ۔ہر گروپ نے اپنے ممبروں سے قرآن پر حلف لیا تھا ۔ایک ممبر نے ادھر بھی حلف اٹھایا ۔ادھر بھی حلف اٹھایا اور یوں کھیل کا پا نسہ پلٹ گیا ۔سماجی ،فلاحی اور رفاہی کاموں کے سلسلے میں انہوں نے فرانس، برطانیہ، جر منی، شام اور بھارت کے کئی دورے کئے ۔ڈاکٹر مبشر حسن ،ڈاکٹر آدم نیّر ،بیر سٹر مسعود کو ثر اور دیگر شخصیات کے پر وگرام “پیپلز فورم فار پیس ینڈ ڈیموکریسی “کے تحت نئی دہلی کے دورے میں ایک بار سینئر صحافی حبیب الرحمن اُن کے شریک سفر تھے ۔ڈاکٹر ظہور احمد اعوان بھی اس سفر میں شریک تھے ۔19 فروری 2005 ء کے سفر ہند میں چترال کے پر وفیسر سید تو فیق حسین جان بھی ان کے ہمرکاب تھے ۔دسمبر2011 ء اور جنوری 2012 ء میں بھی وہ نئی دہلی کا دورہ کر نے والے سیاستدانوں کے پاکستانی وفد میں بھی شامل تھے ۔1977 اور 1981ء میں انہوں نے فرانس اور جرمنی کے دورے کئے ۔اس سال وہ شام بھی گئے ۔دمشق میں انہوں نے ہفتہ گزارا تھا ۔1996 ء میں انہوں نے بر طا نیہ کا دورہ کیا ۔ اس دورے میں ان کے دل کی بائی پاس سر جری ہو ئی ۔زین العابدین مرحوم کے دوست و احباب کا وسیع حلقہ تھا ۔وہ رکھ رکھاؤ اور وفاداری بشرط استواری کے قائل تھے ۔سیاست میں ان کا رویہ محبت اور وفاداری کا رویہ تھا ۔زندگی میں ان کو کئی صدموں سے دوچار ہو نا پڑا ۔بھائی سیف الملوک شہید کی جدائی کا سانحہ تھا ۔دل کے آپر یشن کے بعد وہ 20 سال تک صحت مند اور چاق وچوبند رہے ۔ صبح کے وقت کچھ دیر کے لئے چہل قدمی کرنا انکا روز کا معمول تھا۔ 84 سال کی عمر میں بھی وہ اپنے ہم عمر لوگوں کے مقابلے میں کئی گنا بہتر صحت رکھتے تھے ۔سڑک کے حادثے میں ان کے سر میں چوٹیں آئیں ۔دو ہفتے سے زیادہ کو مہ میں رہنے کے بعد31 مارچ 2016 ء کی صبح لاہور کے نجی ہسپتال میں چل بسے ۔اُن کی جدائی سے خیبرپختو نخوا اور وطن عزیز کی سیاسی وسماجی زندگی میں جو خلا پیدا ہو ا ہے وہ برسوں پُر نہیں ہو سکے گا۔ بقول ساغر صدیقی :

کچھ واقفانِ ادابِ محبت نہیں مرتے
کچھ صاحب اسرار سدا زندہ رہیں گے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔