دھڑکنوں کی زبان…….یاد کی خوشبو ’’ مرحوم زین العابدین

………محمد جاوید حیات ؔ

چترال کی سرزمین روایتوں کی سرزمین ہے یہاں پر مادی لحاظ سے اور جعرافیائی لحاظ سے پسماندگی اپنی جگہ مگر ذہنی،رہن سہن اور سوچ کے لحاظ سے پسماندگی کہیں نہیں ۔یہاں کی تہذیب بھی عجیب تہذیب ہے جو جھونپڑیوں میں پنپتی ہے اور بر قرار ہے۔ کچی گلیوں سے محبت اور شفقت کی ایسی خو شبو آتی ہے جو کسی محل سر ا کے پھول بچھونوں سے نہیں آتی ۔یہاں کا راج مزدور کدال مار رہا ہوتا ہے۔مگر منہ سے الفاظ نہیں موتی بکھر رہے ہوتے ہیں۔بوڑاھاہوگا مگر اسکے ہر لفظ لفظ سے خوشبو آئے گی ۔یہ روایتوں کی امین سرزمین ہے ۔یہاں پر چند خاندان سختی سے اپنی روایات پر عمل کرتے ہیں ۔ جو اس انداز اور روایات کی زندہ مثالیں ہیں ۔ ان خاندانوں کی پوری ایک گیھپ ان کا انداز تخاطب ، القابات ، نشست وبرخواست ان کی پہچان ہے۔ ان کے ہان ایک یونیک سسٹم ہے۔ اس سے کسی بھی صورت انحراف نہیں کیا جا سکتا ۔ مجلسی اداب ہیں ۔ بڑھوں اور چھوٹوں کے اپنے انداز ہیں ۔ اپنی روایات کی زندہ مثال مرحوم زین العابدین تھے ۔ انھوں نے دارفانی چھوڑا مگر اپنے پیچھے بڑا خلا بھی چھوڑا ایسا خلا جو شاید پر نہ ہو ۔ اس نے اپنے خاندان کی کڑیاں ایسی کھینچی تھی کہ سب مذہب ترین بن گئے تھے ۔ ان کے منہ سے الفاظ ایسے نکلتے جیسے شہد گرم پانی میں گھل رہا ہو ۔ وہ باہیں پھیلا تا اور ملنے والے کو گلے لگا تا اس کا سینہ شرافت کا اما جگاہ تھا ۔ وہ ہر ملنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی انکھوں میں ڈوب جاتا ۔ اس کا حال احوال ایسا پوچھتا گویا کہ وہ اس کے خاندان کا فرد ہو ۔ اور وہ اس کے دکھ درد میں تن من دھن سے شریک ہو اس کی زات ایک انجمن تھی ایک وقار ، ایک وجاہت ، ایک وابستگی ، ایک انس ، ایک رشتہ ، ایک انسانیت کا رشتہ ۔۔۔وہ ایک ڈھارس تھا ۔ انھوں نے اپنا تعارف کسی لیڈر، کسی صاحب جاہ و حشم صاحب جائیداد کے نہیں کر راتا۔ وہ جس سے ملتا تواپنے بارے میں سب کچھ بھول جاتا ۔ اس کی رگوں میں شرافت کا خون دوڑ رہا ہوتا ۔ اس نے محبت سے بہت کچھ جیت لیاتھا ۔ اس لئے سب اس کا احترام کرتے ۔ ان کو بڑی نمائندگی ملی مگر غرور کے سارے بت اس کی زات سے ٹکر ا کر پاش پاش ہو گئے ۔ وہ اس طرح لوگوں میں محبت بانٹتے رہے ۔ اس کا بڑا خاندان اور پھیلے رشتے تھے ۔ لیکن وہ سب کا رول ماڈل تھا۔ اس کی زبان سے شاید کوئی تلخ لفظ نکلا ہو ۔ وہ ابشار اور جھرنے کی مانند تھے ۔ وہ پیار میں سب کچھ لوٹا نے کو ہوتے ۔۔۔۔ان کو چھوٹوں بڑوں سب سے پیار تھا ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کو جانوروں سے بھی والیہانہ محبت تھی ۔وہ غم غلط کرنے کی مشین تھے ۔ دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھتے ۔۔۔وہ آتے تو لگتا کہ سب آگئے ،، اور وہ نہ آتے تو لگتا کہ ’’کوئی نہیں آیا ‘‘ وہ اس لحاظ سے چترالی تہذیب کا بے مثال نمائندہ تھے ۔اس کی انگ انگ سے چترالیت ٹپکتی ۔اس لئے میں آپ کی موت کو خلا کہتا ہوں اور ایک خواب جو زمانوں دھرایا جا ئے گا شاید پھر اس مئٹی سے اس گاؤں اور خاندان سے کوئی زین العابدین اٹھے ۔۔۔۔کیونکہ انسان تو ہر گھر میں پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کہیں کہیں جنم لیتی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔