دھڑکنوں کی زبان….’’ محترمہ ماروی میمن کا دورہ چترال ‘‘

……….تحریر: محمد جاوید حیات …….
محترمہ ماروی میمن انچارج بینظیر انکم سپورٹس پروگرام اور وفاقی وزیر نے چترال کا دورہ کیا ۔ ماروی میمن کے لئے چترال شاید ایک خواب ہو اس لئے کہ خواب بھیانک بھی ہوتے ہیں۔ خوابوں کی ایسی سرزمین میں جہاں تک پہنچنے کے لئے جان جوکھوں پر ڈالنا پڑتا ہے ۔راستے میں کہکشان آئیں ۔گلشےئر آئیں۔ پر پیج راستوں کی اتار چھڑاؤ آئیں ٹنل ’’ لاوارث ‘‘ آئے ۔تنگ سی کھڈ بھر ی کچی سڑکیں آئیں۔ سنگلاخ چٹان، طوفان ،اگلتی ندیاں، دہشت زدہ کرنے والی پربتیں اور بے رحم برفانی تودے آئیں ۔ پھر برائے نام ایک پٹی سی تنگ سی وادیوں کا سلسلہ جسے چترالنام دیا گیا ہو مگر ماروی میمن کے سینے میں ایک بہن۔بیٹی اور ایک عورت کا دل ہے۔وہ ہرہر پل دھڑک چکا ہوگا۔ مچل چکا ہوگا۔کڑا کے سے دھک دھک چکا ہوگا ۔کئی بار اس نے سینے پر ہاتھ رکھی ہوگی اور حیات مستعار کی بے بسی پر افسوس کر چکی ہوگی وہ گلشیر کے اوپر کھڑی ہوئی ہوگی جس کے تہ میں کتنی ماؤں کے جگر گوشے سو چکے ہونگے اور اس کو احساس ہوا ہوگا کہ ان بے بس ماؤں کے اشک کہاں کہاں پر گرے ہونگے ۔ان پرٹوٹی قیامت کا اندازہ ماروی میمن کو ہو چکی ہوگی ۔ ان کی آہ سے زمین جل چکی ہوگی ۔ ماروی میمن کو شاید الفاظ پہ یقین نہ ہو کیونکہ ان کے اردگردمنڈلاتے لیڈروں اور کارکنوں میں سے کسی کا گھر بھی گلشیر کے نیچے دبا نہیں ۔ان میں کسی کا بھی بھی جگر گوشہ برف کو ٹھر کریں مار مار کر سکول نہیں جارہا ہوگا ۔ کسی کا بھی باورچی خانہ بغیر چولہا جلا نہیں ہوگا ۔ ا ن کے بنک بیلنس ہونگے ۔قیمتی جوتے ہونگے ۔گرم گرم اورکوٹ ہونگے ۔ وہ ماروی میمن کو کیا بتا سکیں گے کہ بھوک وافلاس کیاہوتا ہے تعلیم سے محرومی کس افسانے کا نام ہے۔تعلیمی ادارہ یعنی کالج یونیورسٹی کا نہ ہونا کتنی بری محرومی ہے ۔بیٹیوں کا تعلیم حاصل کرنے کا حسرت دل میں لئے زندگی کے دن کا ٹنا کتنا دل گردے کا کام ہے ان کو شاید ان مصیبتوں کا سامنا نہیں۔ اگر ہوتا تو انکا خلوص بولتا اور آج چترال میں یونیورسٹی ہوتی ۔بورڈ کمپس میں ساری سہولیات ہوتیں سڑکیں ہوتیں معصوم پھول گلشیر میں نہ دب چکے ہوتے ۔وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بارے میں کیا بتائیں گے ان کے گاؤں میں اگر سپورٹ مل رہا ہے تو وہ بھی ان خاندان کو جو یاتو سیاسی وفادار ہیں یا کارکن ہیں یاان کے گھروں میں دو دو نوکریاں موجود ہیں ۔ان کے تعلقات ہیں ۔لیڈر شپ خلوص کے کھوک سے جنم لیتی ہے اس لئے اس پسماندہ علاقے کے عوام کو اپنے لیڈر شپ سے گلہ جفا ئے وفا نما ہے۔یہاں پرگلیوں میں جوسیاست ہوتی ہے وہ خدمت کے جذبے سے نہیں ہوتی ۔گلیوں کی سیاست عبادت کادرجہ رکھتی ہے۔فخر مو جودات ؐ کے پاس مکے کے شرفا بیٹھے تھے ایک نابینا صحابیؓ تشریف لائے فخرمو جودات ؐنے ذرا سی بے تو جی فرمائی ۔کیونکہ آپ ؐ شرفا کے اصلاح کی سوچ رہے تھے ۔قرآن نے فوراً خبر دار کیا خلوص کی قدر کرو۔ اللہ کو شرفا کی کوئی پرواہ نہیں۔ یہاں گلیوں میں ایسے لوگ ہیں جن کو دنیا کا کچھ پتہ نہیں کہ گلیوں کے باہر کیا ہورہا ہے وہ زندگی کی جھنجھٹوں میں اُلجھے ہوئے ہیں ان کی خدمت چاہیے۔ ان کی دعا انکی وفاداری ہے خلوص بولتاہے خلوص دل میں ہوتا ہے اور دلوں کا مالک خلوص سے باخبر رہتا ہے اُن کو سیاست پڑھانا ہوتا ہے ان کو سیاست سمجھانا پڑتا ہے اسلئے ’’ خدمت ‘‘ پہلے ان تک پہنچے ۔جو ہر لحاظ سے محروم ہیں ماروی میمن شاید کسی جھونپڑی نما گھر کے اندر نہیں جھا نکی وہاں کے باورچی خانے کا معائنہ نہیں کیا ۔کسی ان پڑ ھ غریب دیہاتی سے نہیں پوچھا کہ ان کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں حصہ ہے کہ نہیں ہے۔کاش محترمہ ماروی میمن یہ سب کچھ اپنی انکھوں سے دیکھتی، کانوں سے سنتی ،لیڈر شپ اسی جذبے کا نام ہے۔یہی جذبہ لیڈرکو امر بناتاہے ماروی کی تقاریر کے حوالے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں جذبہ بھی ،خلوص بھی اور لیڈر شپ بھی ہے اس لئے توقع ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ علاقے کو دیکھ کر محسوس کیا ہوگااس علاقے کی مجبوریوں ،پسماندگی اور محرومی کا اندازہ ہوا ہوگااس لئے جہاں بہادر قوم کی ایک بیٹی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتو وہ دیوانہ وار خدمت کرتی ہے چترال کی مٹی پھر بھی اپنی لیڈرشپ کو شاباش دیتی ہے کہ ان کی کوششوں سے قیادت باربار یہاں آتی ہے اور مسائل کا ادراک کرتی ہے یہ مٹی تبدیلی کا منتظر ہے الفاظ ،تقاریر ،وعدے وعید اس نے بہت سنی اب اگر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ری شیڈول ہو ۔یونیورسٹی بنے تعلیم کی راہ میں روکاٹیں دور ہوں تب اس مٹی سے ماروی کی خوشبو آئے گی ۔اانی بھی چاہیے کیونکہ اس مٹی پران کے قدموں کے نشا ن ہیں ۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔