اغوا کاروں کے خلاف موثر کاروائی کی جائے۔ گل احمد

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس) گالیح کریم آباد کی رہائشی گل احمد نے چیف جسٹس آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ ان کی بیوی کے اغوا کاروں کے خلاف موثر کاروائی کی جائے جسے گزشتہ سال ستمبر میں علاقے کے موثر افراد نے اغوا کرلیا تھا اور ابھی تک ان کے قبضے میں ہے جبکہ مقامی پولیس بھی ان کی مددگار بنی ہوئی ہے اور ایس ایچ او شوغور نے اغوا کا دفعہ بھی ایف آئی آر سے خذف کرکے ان کو گرفتار ی سے بچارکھا ہے۔ منگل کے روز چترال پریس کلب میں وادی کے معروف سوشل ورکر شیر جہان، اختر علی، نثار احمد، امجد علی اور دوسروں کی معیت میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ19ستمبر 2015ء کو مداشیل کریم آباد کی رہائشی الیاس ولد گل نواز نے ان کی بیوی لطیفہ بی بی کو بہلا پھسلا کر اغوا ء کرکے اپنے گھر پہنچا دیا جس میں دیگر افراد بھی ان کے ساتھ اعانت جرم میں شریک تھے جن میں ان کاباپ بھی شامل تھا جو کہ اپنی گاڑی میں مغویہ کو لے گئے تھے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مقامی پولیس نے نہ صرف شریک ملزمان کا اندراج ایف آئی آر میں نہیں بلکہ بعد میں اغواء کا دفعہ 365-Bبھی خذف کردی جس سے ملزم کی رہائی عمل میں آئی۔ انہوں نے مقامی پولیس پر ملزمان کی اعانت اور چشم پوشی کاالزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ یہ شرمناک واقعہ حکومت اور معاشرہ دونوں کے لئے باعث شرم ہے کہ ایک کھلم کھلا بے حیائی کے کام پر سب خاموش تماشائی ہیں ۔ ان کاکہنا تھاکہ ان کی شادی آٹھ سال پہلے ہوئی اوران کی پانچ سالہ بیٹی بھی ہے جبکہ ان کا باپ گزشتہ ایک سال حادثے میں اپاہج اور ماں پہلے سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے اور ان حالات میں ان کی خاندانی نظام کو جو نقصان پہنچایا گیا ،وہ ناقابل بیان ہے اور ان حالات میں سول سوسائٹی کے تمام طبقوں کو خاموشی سے بیٹھ جانا مجرمانہ غفلت سے کم نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان حالات میں میڈیا اور اعلیٰ عدلیہ ہی ان کے لئے امید کے چراغ ہیں جن سے مدد کی امید کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اس شرمناک واقعے کا سخت نوٹس نہ لیا گیا تو اس معاشرے میں ہر کسی کا خاندانی نظام بگڑنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی کیونکہ جہاں انارکی پھیل جائے وہاں انصاف غائب اور طاقت کا راج شروع ہوتا ہے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔