جماعت اسلامی ضلع چترال کے دفترمیں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد،قراردادیں پاس

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس)مؤرخہ 27 اپریل 2016 کو دفتر جماعت اسلامی ضلع چترال میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوا ۔ جس کی صدارت امیر جماعت اسلامی و ممبر ڈسٹرکٹ کونسل چترال مولانا جمشید احمد نے کی ۔جس میں سیاسی پارٹیوں کے صدور اور نمائندوں نے شرکت کی۔اجلاس میں متفقہ طور پر درج ذیل قراردادیں پاس ہوئیں۔
ڈسٹرکٹ انتظامیہ عوامی نمائندوں کے منظور کردہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں بلاوجہ رکاوٹ ڈال رہی ہے۔تحصیل اور وی سی ناظمین کے ترقیاتی منصوبوں کے اے ڈی پیز عرصہ سے انتظامی سربراہان کے سامنے پڑی ہیں، مگر انتظامیہ کے ذمہ داراں ان پر دستخط کرکے ٹینڈرز کے لیے آگے کرنے سے گریزاں ہیں۔جس کی وجہ سے نہ صرف ترقیاتی اور دیگر منصوبے تشنہ تکمیل پڑی ہیں بلکہ عوام میں بھی شدید تشویش اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
قرارداد کے ذریعے وزیر اعلیٰ، وزیر بلدیات، وزیر خزانہ اور چیف سیکرٹری سے پُرزور مطالبہ کیا گیا کہ ضلع چترال کی غربت، پسماندگی، قدرتی آفات سے تباہی کے پیش نظرعوام کے حالات زار پر رحم فرماکر انتظامی سربراہان کو اپنا رویہ درست کرکے عوامی نمائندوں کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے اور jiسوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوامی نمائندوں کو ناکام بنانے کی روش کو ترک کرنے کا حکم دیدیں۔
سی ڈی ایل ڈی پراجیکٹ بھی تاحال تعطل کا شکار ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں 50 فیصد کام تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی غفلت ، لاپروائی اور عدم توجہی سمجھ سے بالاتر ہے اور ہم اس بات کوقصداََ عوامی نمائندوں کو ناکام بنانے کی سازش ہی قرار دے سکتے ہیں ۔ اگر آپ سے استدعا کے بعد بھی ان کے رویے میں تبدیلی نہ آئی تو عوامی نمائندے خود راست قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔

قراردادنمبر2:
(۱)شرکاء نے وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کے اعلان کے مطابق گولین گول ہائیڈرل پاورسے چترال کو 30 میگاواٹ بجلی دینے کے اعلان کے بعد متعلقہ محکمے کی جانب سے پیش رفت نہ کرنے اور وزیر اعظم پاکستان کے اعلان کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات سے گریز پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اور کہا گیا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے چترال تشریف لاکر بھری محفل میں چترالی عوام کو یہ نوید سنائی تھی ، جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں، مگر متعلقہ محکمہ وزیر اعظم کے اعلان کو عملی جامہ پہنانے سے گریزاں نظر آتا ہے، جو کہ نہایت نامناسب اوروزیر اعظم پاکستان کے اعلان کے منافی رویہ ہے۔ لہٰذا ضلع چترال کی سیاسی جماعتوں کا یہ نمائندہ فورم مطالبہ کرتا ہے کہ متعلقہ محکمہ چترالی عوام کے ساتھ وزیر اعظم کے وعدے کے مطابق مذکورہ ہائیڈل پاور سے 30فیصد بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے اقدامات شروع کرے تاکہ وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق چترالی عوام کے لیے مذکورہ بجلی سے استفادہ یقینی ہو۔
(۲) گولین گول ہائیڈل پاورسے ٹاورزتنصیب اور لائینوں کو دیہات اور زرعی اراضی کے درمیاں میں نقشہ بناکر گزارنے کے فیصلے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ چترال میں زرعی اراضی کی قلت اور لوگوں کی غربت کے باوجود ٹاورز اور لائینوں کی بچھائی کی صورت میں لوگوں کو مزید زرعی اراضی سے محروم کرناجبکہ آس پاس غیر آباد ایریا زبھی موجود ہوں ،ہرگزقرین انصاف نہیں ہے۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کا یہ نمائندہ فورم پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ مذکورہ لائینوں کو ہر حال میں غیر آباد جگہوں سے گزاری جائے اور اگر کہیں ناگزیر ہو ، تو اراضی مالکان کو معقول معاوضہ دیا جائے۔

قرارداد نمبر3:
یہ کہ گولین (چترال) کے مقام پر ایس آر ایس پی کے زیر انتظام چترال ٹاؤن کے لیے 2 میگاواٹ بجلی گھر کی تعمیر کا کام نہایت سست رفتاری کا شکار ہے۔ مذکورہ ادارہ نے چھ مہینوں میں بجلی گھر کی تعمیر کا وعدہ کرکے کام کا آغاز کیا تھا، مگر آج دو سال کا عرصہ گزرنے پر نصف کام بھی تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔
2 میگاواٹ کا یہ بجلی گھر گولین گول ہائیڈل پاور کی تعمیر سے قبل چترال ٹاؤن کے لوگوں کو بجلی کی قلت اور مشکلات سے نکالنے کی غرض سے تعمیر کیا جارہا تھا، مگر افسوس کہ ایس آر ایس پی شدید نااہلی اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے چترال ٹاؤن کے لوگوں کی آرزو پر پانی پھیر دیا۔ مذکورہ پراجیکٹ میں کام کے رفتار کو دیکھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ گولین گول ہائیڈل پاور سے پہلے اس کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے۔ مذکورہ پراجیکٹ پر کام کے آغاز کے وقت ایس آر ایس پی کی جانب سے جو وعدہ حکومت اور عوام کے ساتھ ہوا تھا ، اس کے پیش نظر کام میں تاخیر کے سلسلے مذکورہ ادارے سے باز پرس اور اس حوالے سے ہونے والی غفلتوں اور لاپروائیوں پر ذمہ داراں کا کڑا احتساب کیا جائے۔اور آئندہ کے لیے اس قسم کی فوری نوعیت کے منصوبے مذکورہ ادارے کے حوالہ نہ کیا جائے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔