دھڑکنوں کی زبان ۔۔،، یہ بڑے ہمارے ہیں ،،

…….محمد جاوید حیات……

ہم اچھوں کو برُا کیوں کہیں ؟ اپنے بڑوں کو ملامت کیوں کریں؟جبکہ ہمیں پاکستانی ہونے پہ فخر ہے۔ تو پھر اپنے بڑوں پہ فخر کیوں نہ کریں ۔پاکستان ہمارا ہے سب بڑے ہمارے بڑے ہیں ۔۔جمہوریت کے تینوں ستونوں عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے بڑے ہمارے بڑے ہیں ۔ہم دعائیں دینے والے،سر جھکانے والے ،تالیاں بجانے والے، اس ملک کے باشندے ہیں ۔اس مٹی سے ہماری خمیر بنی ہے۔اس مٹی کو اوڑھ کر سو جائیں گے۔اس مٹی کی خوشبو سے مشام جان معطر ہے۔سب کو اس بات پر یقین کر نا ہو گاکہ ان کی پہچان صرف پاکستان ہے۔محلوں میں رہنے والوں کی بھی،جھونبڑیوں میں گزارا کرنے والوں کی بھی،ریڑھی پھیری والوں کی بھی،فیکٹری والوں کی بھی، چمکتے گاڑیوں میں چلنے والوں کی بھی،سب کی پہچان ہے۔سند ھ کے ریگستان،پنجاب کی شادابیاں،بلوچستان کے صحرا۔سرحد کے بربت و کہسار ہمارے ہیں ۔ہمیں پیرس کی چمک،لندن کی پارکوں اور امریکہ کے محلات کی آرزو نہیں،۔۔۔ہاں البتہ اپنے پارکوں کی سجاوٹ میں خلوص کی ضرورت ہے۔۔۔یہ بڑے ہمارے ہیں ۔ان کی جائیدادیں ان کی ہیں ،ان کی رعنائیاں ان کی ہیں ،ان کی حکمرانیاں اور اقتدار ان کا ہے۔مگر وہ ہمارے ہیں۔ ہمیں ایک لفظ( پاکستانی)سے عشق ہے۔جو پاکستانی ہے وہ ہمارا ہے۔ہم نہیں کہتے کہ بینک میں پیسے ہمارے ہیں ۔جنگلات کی لکڑیاں ہماری ہیں ،پہاڑوں میں چھپے معدانیات ہمارے ہیں ۔سمندر میں سیپیاں ہماری ہیں ۔وہ سب جن کی ہیں وہ جانے۔۔۔مگر پاکستان ہمارا ہے۔ اس کا ذرہ ذرہ ہماری امانت ہے۔اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔۔۔۔یہ بڑے ہمارے ہیں ۔۔ان کی سوچیں ان کی ہیںْ ۔ان کی منصوبہ بندیاں ان کی ہیں۔ان کے خواب اور خواہشات ان کی ہیں ۔۔۔۔مگر یہ ہمارے ہیں ۔۔یہ ہمارے بڑھے ہیں ۔۔بیشک یہ ہمیں دھوکہ دیں ۔ہمیں بھول جائیں ہمارا خیال نہ رکھیں ،ہماری غربت کا ان کو کچھ پتہ نہ ہو۔ہماری مجبوریوں کا ان کو کوئی اندازہ نہ ہو۔۔۔لیکن یہ ہمارے ہیں۔۔ہم تالیاں بجائیں وہ ہنسیں،ہم تعریف کریں وہ مغرور ہو جائیں ،ہم دعا کریں وہ کامیاب ہو جائیں۔ہم نہیں کہتے کہ ان پر ہمار ا کوئی حق ہے۔بس یہ ہمارے بڑے ہیں ۔۔۔ہم کچھ نہیں جانتے لوگ کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں جب بھی موقع ملے تو ایک دوسرے کے گریباں پکڑتے ہیں ۔۔یہ ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ا ن کا بہترین تجزیہ کار عوام ہو تے ہیں۔اگر انھوں نے خلوص سے حکومت کی مخلوق خدا کی خدمت کی تو خود بخود ان کو اقتدار ملے گا۔اگر ایسا نہ کریں تو غریبوں کی اہ میں بڑا اثر ہوتا ہے۔۔۔۔۔ہم نے کھبی کسی حکومت کو بُرا بھلا نہیں کہا۔۔انھوں نے ایک دوسرے کو بہت کچھ کہا ۔۔میری آرزو ہے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔۵سال ہی کی تو بات ہے۔اپنی شرافت اور سنجیدگی سے سب کو جیت جائیں۔یہ سب رنگینیاں تمہاری ہیں ۔تم اسمبلی کے اندر یا باہر۔۔تم نے مجبوری دیکھی نہیں ۔اس لئے تمہیں سمجھا یا بھی نہیں سکتا۔۔۔تم ہمارے بڑے ہو۔۔ہم نے دنیا کو دو دن سمجھ رکھا ہے تم اس کو قرنوں کا کہو۔۔ہم نے اس کو خواب سمجھ رکھا ہے تمہارے نزدیک تعبیر ہو۔۔۔لیکن تم سے ہمارا رشتہ نہیں ٹوٹے گا۔۔۔۔ا پنا خیال رکھئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔