داد بیداد ……ٹرمز آف ریفرنس

………..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ ……
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی وطن واپسی کے بعد “ٹی او آرز “کا تذ کرہ زور پکڑ گیا ہے ۔اپو زیشن جما عتیں اس کا بڑاذکر کر تی ہیں ۔عوام اور طلبہ جگہ جگہ سوال کر تے ہیں کہ “ٹی او آرز “کی کیا اہمیت ہے ؟ٹی او آر انگریزی مخفف ہے ۔پو ری اصطلاح ٹر مز آف ریفرنس Terms of Reference ہے ۔اس کا سلیس تر جمہ “شرا ئط حوالہ “بنتا ہے ۔تاہم یہ انگریزی اصطلاح اردو کی ترکیب قوا عد و ضوابط کے ہم معنی ہے ۔اس کو ٹرمز اینڈ کنڈ یشنز بھی کہا جا تا ہے ۔علامہ اقبال نے عربی کی ایسی اصلاحات اورمخففات سے تنگ آکر یہ بات کہی :
قلندر کچھ بھی نہیں رکھتا جز دو حرف لا الہٰ
فقیہ شہر قارون ہے لغت ہا ئے حجازی کا
یہ لغت ہا ئے انگلیسی کی اصطلاحات ہیں اور این جی او سے تعلق رکھنے والے لوگ ان الفاظ و تر اکیب یا مخففات کے قارون کہلا تے ہیں ۔اخبار بین حلقو ں کو یا د ہو گا ۔جب ایبٹ آباد چھا ؤنی پر امریکہ کے حملے کی بات آگے بڑھی ۔اسامہ بن لادن کی موجود گی کا جھو ٹ پکڑا گیا ۔لاش گم ہو گئی ۔ کمپاؤنڈ سے کچھ بھی نہ ملا تو ایک کمیشن بنایا گیا۔ اس کے لئے ٹی او آرز بنائے گئے پھر میمو گیٹ کی قیا مت ٹو ٹ پڑی تو پھر کمیشن پھر ٹی او آرز بنا ئے گئے ۔دونوں کمیشن اپنے ٹی او آرز کے ساتھ اللہ میاں کو پیارے ہوگئے ۔ پانامہ لیکس پر بننے والے کمیشن اور اس کے ٹی او آرز کا معالمہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔اس وقت اپوزیشن کی گیا رہ جما عتو ں کے پاس الگ الگ ٹی او آرز ہیں۔ ایک جماعت دوسری جماعت کے ٹی اوآرز سے متفق نہیں ہے ۔حکو مت کسی او ر کے ٹی او آرز سے متفق نہیں ہے ۔ہر ایک نے بغل اور ہاتھوں میں ٹی اوآرز اُٹھا ئے ہو ئے ہیں ۔قدسی کا مشہو ر شعر ہے ۔
روز قیامت ہر کسے در دست گرد نامۂ من نیز حا ضری شوم تصویر جا ناں در بغل
قیامت کے روز جب ہر ایک کے ہاتھ میں نامہ اعمال ہو گا ۔میں اپنے محبوب کی تصویر بغل میں لیکر حا ضر ہو جا و نگا ۔اس مسئلے میں جمعیتہ العلما ئے اسلام (ف)کے سر براہ مو لانا فضل الرحمن واحد لیڈر ہیں جن کے بغل میں ٹی او آرز نہیں ہیں ۔مو لانا کو دو باتوں کا بخو بی علم ہے ۔پہلی بات یہ ہے کہ لغو یات سے گزر تے ہو ئے خاموشی اختیار کر نی ہے ۔دو سری بات یہ ہے کہ جس بات کا انجام صفر ہو اس میں ہر گز نہیں پڑنا چا ہیے ۔ٹی او آرز کی مثال دہقان کے کھیت میں پکنے والے خو شہ گندم کی طرح ہے ۔یہ دہقان کی روزی میں نہیں اور علامہ اقبال نے اس پر اٹل فتو یٰ جاری کر دیا ہے :
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خو شہ گندم کو جلا دو
اس وقت وطن عزیز پا کستان کو جن بڑے بڑے مسا ئل کا سا منا ہے ان میں پانامہ لیکس کا نمبر 700 ویں نمبر پر بمشکل جگہ پا تا ہے ۔وطن عزیز کو مشرقی اور مغربی سرحدات پر دشمن نے گھیر رکھا ہے ۔ہماری مسلح افواج مشرقی سرحد پر وردی والے دشمن سے لڑرہی ہیں ۔مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ کو چوں اور گلیوں میں اسی دشمن کے بغیر وردی آنے والے اہلکا روں ،گما شتوں اور مزدوروں سے مقابلہ ہے ۔ملک میں تو انائی کا بحران ہے ۔ ملک میں پانی کے ذخائر کا بحران ہے۔ گر میاں آتے ہی سیلا بوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے ۔ملک میں چار کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔دو کروڑ بچے مزدور ی کر تے ہیں ۔2 کروڑ بچے یا بھیک مانگتے ہیں یا کچرا جمع کر تے ہیں ۔ملک کے اندر ،یرقان ،پو لیو اور ایچ آئی وی ایڈز کے امراض سے بچا ؤ کا کو ئی سسٹم نہیں ہے ۔غربت اور بے روز گاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ۔واپڈا ،پی آئی اے ،پا کستان سٹیل جیسے بڑے اداروں کی نجکاری کے بغیر چارہ نہیں ۔یہ ادارے مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں۔ ایسے 699مسائل کو چھوڑکر 700ویں نمبر پر آنے والے اخبار کو اُٹھا یا گیا ہے نہ قوم کے ساتھ اس کا تعلق ہے نہ ملک کے کیساتھ اس کا تعلق ہے اور نہ عوام کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ پوری دنیا کے لوگ گلوبل ویلیج میں جگہ جگہ آف شور کمپنیاں بنا کر کاروبار کرتے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
ڈاکٹر محمد یونس بٹ نے بڑے معرکے والے خاکے لکھے ہیں۔ میا ں محمد نواز شریف کے خاکے میں لکھتے ہیں اُن کو کتابوں سے بہت لگاؤ ہے۔ پاس بُک اور چیک بُک ان کی دو پسندیدہ کتابیں ہیں ۔ جنہیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ اے ٹی ایم آنے سے پہلے کا زمانہ تھا۔ اب تو بات کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم سے بھی اگے نکل گئی ہے۔ ٹی او آ رز کے مسئلے پر تاریخ کی دو مثالیں صادق آتی ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو عیسائی پا دریوں اور راہبوں میں جس مسئلے پر زور دار بحث ہورہی تھی وہ مسئلہ یہ تھا کہ اپنی آخری کھانے پر عیسیٰ علیہ السلام نے جو کی روٹی کھائی تھی یا گندم کی ؟ جب بیت المقدس فتح ہوا تو مسلمانوں کی تلوار نے بحث کا خاتمہ کر دیا۔ اس طرح تیرھویں صدی میں جب ہلا کو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے جیّد علما ء اس بحث میں مشغول تھے کہ خلق قرآن کے ماننے والے کافر ہیں یا مسلمان ؟ قرء ت خلف لامام جائز ہے یا نہیں ؟ آمین با الجہر کہنے سے نماز ہوتی ہے یا نہیں ؟ اور رفع ہدین کتنی بار جائز ہے۔ ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بحث میں لمبی لمبی دلیلیں لانے والوں کو پکڑ کر ایک ایک کرکے تہہ تیغ کیا۔ اُن کے سر وں کے مینار کھڑے کر دئیے۔ اُن کا جرم یہ نہیں تھا کہ وہ مسلمان تھے ۔بلکہ اُ نکا جرم یہ تھاکہ وہ ” مقتضائے حال” کو نہیں سمجھتے تھے ۔اُن کی تر جیحات غلط تھیں۔ ہمارا دشمن مشرقی سرحد پر 2لاکھ فوج اور جدید سازو سامان کے ساتھ حملے کے لئے تیار ہے۔ دشمن نے 50ہزار کی فوج سفید لباس میں ہماری مغربی سرحد پر ڈال دی ہے۔ ان کے پاس دیگر ہتھیاروں کے علاوہ خودکش جیکٹ بھی ہیں ۔10ہزار کی فوج کومفتی لباس میں ہمارے شہروں کے اندر خفیہ پناہ گاہوں میں جگہ دے کر ٹھہرایا ہے۔ حکومت اور پوزیشن جماعتیں ٹی او آرز ہاتھ اور بغل میں لیکر بیٹھی ہوتی ہیں ۔ایک کہتا ہے جو ڈیشل کمیشن کے شرائط وضوابد میں 13باتیں ہونی چاہئیں۔ دوسرا کہتا ہے 17باتیں ہونی چاہئیں ۔ تیسرا کہتا ہے 22باتیں ہونی چاہئیں۔ یہ شور شرابہ اور سرپھٹول جاری رہے گا، کیونکہ پاکستانی قوم تمام بحرانوں سے نکل سکتی ہے۔ قیادت کے بحران سے کبھی نہیں نکلے گی ۔ چیف جسٹس کی وطن واپسی کے بعد ٹی او آرز کے معاملے کو مزید طول دیا جائے گا اور اتنا طول دیا جائے گا کہ چیف جسٹس کو کہنا پڑے گا ۔ تم ٹی اوآرز پر متفق ہو جاؤ ، میں کمیشن بنا لوں گا ۔ یادش بخیر! جنرل ضیاء الحق نے 1978 ء میں نفاز شریعت اور نظام مصطفےٰ کا اعلان کرتے ہوئے ایک آسان سی شرط رکھی ۔ علمائے کرام جس طرح کے نظام پر متفق ہو نگے میں وہی نظام نافذ کر ونگا ۔ جنرل ضیاء اسکے بعد 10سال اقتدار میں رہے ۔علماء متفق نہ ہوسکے ۔ جنرل ضیا ء کا وعدہ پورانہ ہوا ۔ یہ چیلنج آج بھی موجود ہے ۔ٹی او آرز کا چیلنج بھی ایسا ہی ہے بقول غالب :
وہ اپنی خو نہ چھوڑ ینگے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔