داد بیدا د …..عوامی مفاد کی وکالت

………….ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ …….
مختصر ایک کالمی خبر اخبارات میں لگی ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی ضلع میں وکلاء نے عوامی مفاد کے مسائل کو مفت عدالتوں میں لیجانے اور ان کی پیروی کر کے عوام کو انصاف دلانے کے لئے ایک تنظیم قائم کی ہے جسے پبلک بونو لائرز فورم کا نام دیا گیا ہے بو نو (BONO) قانونی اصطلاح ہے جو لاطینی زبان سے لیا گیا ہے اس کا مطلب ہے مفاد اور دلچسپی ہنگامی حالات میں مفاد اور دلچسپی کا مطلب ہوتا ہے جان و مال کا تحفظ ، انصاف کی فراہمی اطلاعات تک رسائی اور کرپشن سے نجات یا چھٹکارا عام حالات میں عوامی نمائندگی ، ماحولیات اور دیگر معاملات بھی عوامی مفاد کے قوانین کی حدود میں آتے ہیں گویا یہ عوامی مفاد کی وکالت ہے اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کاآر ٹیکل 9 شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے اسی طرح آئین آرٹیکل 14 بنیادی حقوق ، مساوات اور انصاف کی ضمانت دیتا ہے آئین کے دونوں دفعات ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع پاٹا (PATA) میں نافذ العمل ہیں مگر انتظامیہ ان پر عملد ر آمد میں کوتاہی کرتی ہے اسی طرح آئین کا دفعہ 247 ہے جو سرکاری اطلاعات احکامات اور خط وکتا بت تک عوام کو بلا رکاؤٹ رسائی کا حق دیتا ہے صوبائی حکومت نے اب تک ملاکنڈ ڈویژن پر اس آرٹیکل کا اطلاق نہیں کیا پاٹا (PATA) تک اس آرٹیکل کی توسیع نہیں ہونے دی پبلک بو نو لائر ز فورم اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ یہ قانون دانوں کی تنظیم ہے سیشن جج کی حیثیت سے عوامی مفاد کے ہزاروں اہم فیصلوں کی شہرت رکھنے والے سینئر وکیل امیر گلاب خان ا س فورم کے صدر ہیں جو اس وقت ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اس طرح ہائی کورٹ کے وکلا ء محمد اجمل خان، عزیز الدین اور عطا ء الرحمن اس تنظیم کے عہد یدارہیں چترال بار ایسو سی ایشن کے اراکین بار کونسل میں ملاکنڈ ڈویژن کی نمائند گی کرنے والے سینئر قانون دان عبد الولی خان اور ڈسٹرکٹ بار کے صدر غلام حضرت انقلابی اس فورم میں فعال کردا ر ادا کرنیگے فورم عوام میں بنیادی حقوق کی آئینی ضمانتوں کے حوالے سے آگاہی پھیلا ئے گا عدالتوں میں عوامی مفاد کے مقدمات کی مفت پیروی کر نے کے لئے طریقہ کار وضع کر یگا اگر کوئی متاثر ہ فریق عدالت جانے کی استطاعت نہیں رکھتا وکیل کی فیس اور عدالتی پیروی کے اخراجات بر داشت نہیں کرسکتا وہ فورم سے رجوع کرے گا فور م اُس کا مقدمہ لڑے گا اور عدالت سے اس کو انصاف دلائے گا مثلاً انتظامیہ نے ناقص پُل ، سڑک او رعمارت تعمیر کی تھوڑی مدت میں سٹرکچر کے گرنے سے دوچار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں قومی خزانے کو 3 کروڑ یا 4 کروڑ روپے کا نقصان ہوا اس کا مقدمہ عدالت میں لے جانا اگر متاثرین کے لئے مشکل ہو تو پبلک بو نو لائر ز فورم ایسا مقدمہ عدالت میں لے جائے گا مقدمہ لڑ ے گا اور متاثرین کو انصاف دلائے گا ملاکنڈ ڈویژن کے سات اضلاع قدرتی آفتوں کی زد میں ہیں سیلاب اور زلزلوں سے متاثر ہوئے ہیں بنیادی ڈھانچے کی بحالی حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے 2010 ؁ء سے لیکر 2016 ؁ء تک جتنے سیلاب آئے ان سیلابوں کے نقصانات کا ازالہ اب تک نہیں ہوا انفراسٹرکچر کی بحالی نہیں ہوئی اس حوالے سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پراونشیل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کے خلاف عوامی مفاد کے کم از کم 35 مقدمات بنتے ہیں آرٹیکل 9 ،آرٹیکل 14 اور آرٹیکل 247 کے تحت ان اداروں کو پہلی بار عدالتوں میں جواب دہی کیلئے لا یا جائے گا اس طرح واپڈا ، پی ٹی سی ایل ، اور پی آئی اے کے خلاف 10 مقدمات بنتے ہیں جو اعلیٰ عدلیہ میں داخل کر نے کے قابل ہیں ڈسٹرکٹ کلکٹر ، محکمہ اریگیشن، سی انیڈ ڈبلیو PHED ،محکمہ تونائی اور محکمہ دیہی ترقی کے خلاف 45 مقدمات بنتے ہیں مثلاً پشاور کا تعلیمی بورڈ(BISEP) ضلع چترال کے 55 ہزار طلبہ ، طالبات سے ہرسال 18 کروڑ رپے کے محاصل (ریونیو ) لے لیتا ہے جواب میں ان کو کسی طرح کی سہولت نہیں دیتا آئین کی رو سے ملاکنڈ ، سوات ،مردان کی طرح الگ تعلیمی بورڈ چترال کے طلبہ اور طالبات کا حق بنتا ہے چترال کا رقبہ 14850 مربع کلومیٹر ہے پشاور سے اس کا فاصلہ 467 کلومیٹر ہے چترال میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ اور طالبات کی تعداد 55 ہزار ہے اس سے کم رقبے ، کم فاصلے اور کم تر تعاد میں طلبہ اور طالبات کے لئے الگ تعلیمی بورڈ دیا گیا ہے جہاں ہر سال دیگر مراعات کے علاوہ ٹاپ ٹونٹی کے 40 سکالر شپ ملتے ہیں ہر سکالر شپ کی مالیت 2 لاکھ روپے ہے صوبائی حکومت نے چترال کو جان بوجھ کر اس حق سے محروم رکھا ہے اور یہ آئین کے آرٹیکل 9 آرٹیکل 14 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے مثلا سیلاب میں واٹر سپلائی سکیم متاثر ہوئی سڑک بہہ گئی نہر بہہ گئی یا پُل بہہ گیا فوری بحالی کے لئے عارضی طور پر متبادل انتظام کیاگیا اس کے بعد دو سال ، 3 سال ، 4 سال ، 6 سال تک اس کو بھلا دیا گیا اس وجہ سے مالی اور جانی نقصان ہوا متعلقہ محکمے کو عدالت کے سامنے آکر چار سوالات کے جواب دینے ہونگے عارضی بحالی پر کتنا خرچہ آیا تھا ؟ کتنی مدت کے لئے تھا ؟ منصوبے کی مستقل بحالی کیوں نہیں ہوئی ؟ او رمنصوبہ کب مستقل طو ر پر بحال ہوگا ؟ ان سوالات کا جواب محکمے کو عدالت میں آکر دینا ہوگا اگر اس طرح کے حادثات میں کسی شہری کی جان گئی ہے تو شہدا ء پیکچ کے برابر معاوضہ متعلقہ محکمہ ادا کریگا یہ متاثر ین کا قانونی حق ہے متاثرین کے یتیم بچے اس طرح کے حقوق کے لئے عدالت کا در وازہ کھٹکھٹا نے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اب یہ کام ملاکنڈ ڈویژن میں پبلک بونو لائر ز فورم عوام کے لئے انجام دے گا اس سے پہلے نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ اور ساجد اللہ ایڈوکیٹ عوامی مفاد کے مقدمات کی پیروی کر تے تھے اب فورم وجود میں آنے کے بعد فورم کے اراکین ایسے مقدمات کی مفت پروی کرینگے اور اسطرح عوام کو بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت مل جائیگی فیض احمد فیض کا شعر ہے
مٹ جائیگی مخلوق تو انصا ف کرو گے
منصف ہو تو حشر اب اُٹھا کیوں نہیں دیتے !
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔