دھڑکنوں کی زبان……’’پراٹھے‘‘

……..محمد جاوید حیات……..

میں بے اختیار اس کی طرف گیا تھا۔میرا دل مچل گیا تھا ۔کہ میں اس کا رخسار اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کے اس کی آنکھوں کو چوم لوں ۔اس کی ریشمی ذلفوں کو بوسہ دوں ۔مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے منع کیا ۔یہ بازار کا ایک مصروف چوک تھا ۔افطاری میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا۔لوگ ادھر ادھر آجا رہے تھے ۔ان کے ہاتھوں میں بھرے بھرے شاپنگ بیگ تھے ۔گاڑیاں تھیں ان میں بیٹھے اجلے اجلے بچے تھے ۔ان کے ہاتھوں میں ائیس کریم تھے وہ ائیس کریم اٹھا ٹھا کے کھا رہے تھے۔خواتیں و حضرات تھے ۔کہ ان کو اپنی گاڑیوں کے شیشے نیچے کرکے اشراف المخلوقات کی اس معصوم گڑیا کی حالت زار کو دیکھنے کی توفیق نہیں ہورہی تھی۔۔وہ کسی کی کیا پروا کرتے ان کو اپنے اور گھر والوں کے لیئے افطاری لینی تھی ۔چھولے،گرم گرم پکوڑے،گلاب جیمو،برف ،ٹھنڈی شربت،دھی ،لسی ،فروٹ،سموسے اور کیا کیا ۔۔معصوم گڑیا ایک کونے میں فرش پہ بیٹھی تھی۔۔آنکھوں میں اشتیاق،افسردگیاور التجا۔۔۔۔۔سامنے پٹاری کے اوپر کپڑا ڈالا ہواتھا۔۔کپڑے کے اوپر ایک پراٹھا رکھا ہوا تھا ۔۔پراٹھا اوپر سے جلا ہوا تھا ۔۔کسی کو اس کو کھانے کو دل نہ کرے۔۔لگتا تھا کہ کسی نا بلد ہاتھوں نے یہ بنا یا ہے ۔۔۔میں بے اختیار جھک گیا تھا ۔۔میں اس کے قریب بیٹھ گیا ۔تو اس نے ایک ہاتھ اپنے پراٹھے کے اوپر رکھا ۔اسکی آنکھوں میں ایک داستان حسرت غود کر آئی۔۔شکایت کا ایک سیلاب امڈآیا۔
چاچو۔۔میرے اوپر کیوں جھک گئے تھے ۔پاس آکر کیوں بیٹھ گئے ہو ۔میں تیری شمائلہ تھوڑی ہو ں ۔۔میں ایک جھونپڑی سے آئی ہوں ۔میرے والدیں مجبور ہیں ۔۔اس زندگی کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔۔باورچی خانے میں چولہا بجھا ہوا ہے ۔ہاتھ خالی ہیں ۔دنیا کے اناغیم سے محروم ہیں ۔روزے سے ہیں ۔مجھے بتایا گیا کہ میں بھیک مانگ کے لے جاؤں ۔۔میرا ضمیر تڑپ اٹھا ۔۔میں نے کہا کہ پتھر کا زمانہ ہے ۔۔سب پتھر ہیں ۔۔بڑے بوڑھے پتھر ہیں ۔۔اشرافیہ پتھر ہے ۔۔اہل ثروت پتھر ہیں ۔استاد ،وکیل ،مولانا،جاگیردار، اے سی، ڈی سی ،طالب علم ،گاڑی والا، بائیک والا سب پتھر ہیں ۔۔ان کی جیبوں میں بچھو ہیں ۔۔ان کی آنکھوں پہ پردے ہیں ۔۔ان کے احساسات مر چکے ہیں ۔پتھروں کے اس دیس میں مرے معصوم ہاتھ کس کے سامنے پھیلیں ۔۔اگر پھیلیں گے بھی تو خالی رہیں گے ۔۔میں خالی ہاتھ واپس آؤں گی تم لوگ آس لگائے بیٹھے ہونگے۔۔۔چاچو۔۔تمہاری شمائلہ گھر میں افطاری بنا رہی ہوگی نا۔۔۔ انواغ و اقسام کے کھانے تیار ہو رہے ہونگے ۔دستر خوان بچھے گا کھانے چن دئے ہونگے۔اور آپ سب بیٹھ کے افطاری کر رہے ہونگے۔۔مگر آپ نے کھبی ہم جیسوں کو سوچا ہے ۔۔۔۔چاچو ۔مجھے غصہ آیا تو میں باورچی خانے میں گئی دیکھا کہ ایک برتن میں آٹا پڑا ہے ۔۔گوند کر پراٹھا بنا لیا ۔۔چاچو دس روپے کا ایک پراٹھا ہے ۔لے لو خرید لو ۔۔میرے پہلو میں کیا بیٹھتے ہو ۔میرے اوپر کیا جھکتے ہو اگر تیری کوئی بیٹی ہے تو اس کے صدقے لے جاؤ۔۔میں اب اس کے قریب ڈھیر ہو گیا تھا ۔۔۔میں نے پوچھا بیٹا پراٹھے کتنے ہیں ؟۔۔۔اس نے کہا چاچو دس دانے ہیں ۔۔میں نے کہا بیٹا میں ۲۰ روپے پہ ایک لے لونگا۔۔اس نے کہا آپ کی مرضی ہے ۔اس کی آنکھوں میں چمک اتر آئی ۔۔۔میں نے کہا میں سب خریدونگا۔۔وہ چونک پڑی۔۔میں نے200 روپے میں وہ سب خرید کر شاپر میں ڈال لیا ۔۔مذید200 روپے نکال کر کہا یہ تیری خودی کے انعام ہیں بھیک نہ سمجھنا۔۔اس نے وہ پیسے اپنی پرانی قمیص کی جیب میں ڈال کر فاتحانہ انداز میں کھڑی ہوئی ۔۔میں نے باہیں پھیلا دیں ۔تو وہ میرے گلے سے لپٹ گئی۔اس کی گرد الود ذلفوں کی خوشبومیرے دل کے گلشن کو معطر کر گئی میں نے اس کی چمکتی پیشانی پر ایک طویل بوسہ دیا ۔۔میں نے کہا تم آج سے میری بیٹی ہو ۔۔دور کہیں سے آواز آئی ’’سن لو بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں ۔والدیں کے لئے بھی خاندان کے لئے بھی پوری امت کے لئے بھی۔۔۔
میں گھر پہنچا تو دستر خوان بچھا ہوا تھا۔۔۔خلاف معمول میرے ہاتھ میں افطاریوں کا پلندہ نہیں تھا ۔۔ایک شاپنگ بیگ تھا ۔۔میں نے پہلے سارا واقعہ سنایا پھر شاپنگ بیگ دستر خوان میں رکھ دی ۔۔میری بیوی کی آنکھوں سے آنسووں کے قطرے دسترخوان پہ گر رہے تھے ۔میرے بچے اچک اچک کر پراٹھے اپنے ہاتھوں میں لے لئے تھے اذان ہو رہی تھی ۔۔میں اب بھی بے حسی کے سمندر سے اپنے آپ کو نکلا ہوا نہیں پا رہا تھا ۔حرص کا مگرمچھ اب بھی مجھے دبوجا ہو ا تھا ۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔