وادیِ نا پُرسان ۔۔۔۔ ۔ ارکاری وادی ۔

…………..۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:فرہاد خان
چترال سے تقریبا 60 کلو میٹر دور ایک ایسی وادی بھی ہے جہاں اب تک ٹیلی فون اور موبائل سروس کی سہولیات اس اکیسوین صدی میں بھی دستیاب نہیں ، یہ لوگ انتہائی پُرخطر راستوں کے زریعے تقریبا 5 سے 7 سات گھنٹے دقت امیز سفر کرکے چترال اور چترال سے گھر پہنچ جاتے ہیں اور کئی قیمتی جانیں اس سفرِ کے دوران ضائع ہوچکی ہیں ، یہ پرخطر راستے برفانی تودے، پتھروں کے گرنے اور سیلاب آنے کی وجہ سے جگہ جگہ اتنے خطرناک ہوگئے ہیں کہ کسی بھی وقت انہی راستوں پر مذید جانی و مالی نقصانات کا خدشہ ہے ۔ یہ ہے وادی ِ ناپُرسان ارکاری وادی ، پتہ نہیں کہ اب تک اس وادی کے لوگوں پر کسی نے ترس نہیں کھایا حالانکہ چترال کے دوسرے علاقے کے لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی پاکستانی ہیں ، یہ لوگ بھی ووٹ دیتے ہیں ان کے شناختی کارڈز پاکستانی ہیں، یہ بھی ملک کے دوسرے لوگوں کی طرح وطن سے محبت کرتے ہیں ۔ لیکں اب تک کی حکومتوں نے اس وادی ناپرسان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یہاں کے نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اس مشکل ترین مقامات میں رہنے کے باوجود تعلیم کی خاطر اور خاندانوں کی کفالت کی خاطر انہی پُر خطر راستوں پر سفر پر مجبور ہیں اور دوسری طرف رسل و رسائل کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ترقی کی سفر میں بھی سب سے پیچھے ہیں ۔ 6000 نفوس پر مشتمل اس وادی کے لوگ اب تک جدید دور کے اہم ضروریات سے کوسوں دور ہیں ۔ یہ ان پُر خطر راستوں سے آتے اور جاتے ہوئے اپنے گھر والوں، عزیزوں اور پیاروں کو مطلع نہیں کرسکتے کیونکہ آج بھی یہاں موبائل تو کیا وائرلیس ٹیلی فون نیٹ ورک دستیاب نہیں ، یہ کسی ہنگامی صورتحال میں کسی کو مطلع کرنے کے قابل نہیں ، یہاں ایسا کوئی بھی نظام موجود نہیں جس کے ذریعے ان کا ایک دوسرے کے ساتھ آسانی سے رابطہ ہو ۔ ایک دوست نے بتایا کہ یہاں چترال جانے والے لوگ رات تین بجے اُٹھتے ہیں ، ہاتھ میں ٹارچ لئے روڈ پر گاڑی کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں اور رات کی تاریکی میں چترال کا سفر شروع کرتے ہیں کیونکہ روڈ انتہانی دشوار اور خراب ہونے کی وجہ سے اور پھر سفر کی طوالت کی وجہ سے ڈرائیور حضرات رات کو ہی سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ مناسب وقت پر چترال پہنچ جائیں اور پھر وہاں سے مناسب وقت پر گھر واپس پہنچیں۔ میں نے اکثر لوگوں سے یہاں یہ کہتے ہوئے سُنا کہ انتخابات کے دنوں تقریبا سبھی پارٹی کے امیداوران یہاں آکر وعدہ کرکے جاتے ہیں لیکن ان کے وہ وعدے کبھی ایفا نہیں ہوئے اور اس علاقے کی حالت زار وہی کے وہی ہے اور بدلا کچھ نہیں ۔ ایک اور اہم بات اور وہ یہ کہ پچھلے سال اس علاقے کے اکثر لوگوں نے آلو کے فصل کی اچھی مارکیٹ قیمت کو دیکھتے ہوئے آلو کی فصل کاشت کیں لیکن ۔ ۔ ہُوا کچھ یوں کہ ایک ٹھیکہ ڈار آیا اور ان کے اس سارے محنت و مشقت پر پانی پھیر کر رفو چکر ہوگیا اور اب تک ان لوگوں کے الو کے کمائی کا ایک پائی بھی وصول نہیں ہوا۔ ایک طر ف ان دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے ان لوگوں نے بھاری کرایہ دے کر ان لوگوں نے الو کے بیچ کا انتظام کیا تو دوسری طرف اُس انسان نما بھیڑے نے ہاتھ کی حلال کمائی پر ایسا ہاتھ ڈالا کہ اب تک تلاش بسیار کے باوجود اس کا کچھ پتہ نہیں ۔ یہاں دیکھنے کو ہر چیز ہے قدرت کا دیا ہوا بہترین اب و ہوا، گندم اور جوار کی بہترین فصل یہاں کاشت ہوتی ہے اور خاص کر مشہور پہاڑی ہرن اور بارہ سنگھے اور دوسرے جانور اور پرندے مگر اس وادی کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والی سڑک انتہائی خستہ حال ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ یہاں کی سیر کرنے آتے ہی نہیں حالانکہ ملک کے دوسرے ٹورسٹ زون کی طرح یہاں بھی دیکھنے کو ہر چیز موجود ہے مگر ، سڑکوں کی ناگفتہ بہہ صورتحال اور ٹیلی فون کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے یہ جنت نظیر علاقہ اب تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے ۔ حکومت وقت سے گزارش ہے کہ اس اکیسوین صدی میں بھی اس علاقے کے لوگوں کی بنیادی ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے اس علاقے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ تمام منتخب نمائندوں سے گزارش ہے کہ ارکاری وادی کے لوگوں کے مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایمر جنسی بنیادوں پر ٹیلی فون اور موبائل کی سہولت اس علاقے کو لوگوں کو بہم پہنچائی جائے تاکہ وہ اس جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں ۔ ایم این اے شہزادہ افتخار الدین سے خاص کر گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے ۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کر و گے لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ خاک ہو جائیں گے ہم تجھ کو خبر ہونے تک
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔