دادبیداد ….جعلی شناختی کارڈ

…..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ……
وزارت داخلہ نے بڑا اچھا قدم اُٹھا یا ہے اسلام آباد سے سٹیزن پروفائلینگ کا آغاز کیا ہے ملک بھر میں نادرا اور ایف آئی اے کے ذریعے جعلی شناختی کارڈ وں کی چھان بین کا سلسلہ شروع کیا ہے عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ آپ کے پڑوس میں یا جاننے والوں میں ایسے لوگ ہوں جنہوں نے جعلی شناختی کار ڈ حاصل کئے ہوں ان کی اطلاع دے کر 10 ہزار روپے انعام حاصل کریں میرے دوست مجید گل نے دس افراد کے ناموں کی فہرست مجھے دکھائی جن کے پاس جعلی شناختی کارڈ ہیں ان میں سے کوئی عرب ہے کوئی افغان ہے کوئی ہندوستانی ہے کوئی تاجک ہے کوئی ازبک ہے کوئی چیچن ہے کوئی افریقی ہے کوئی امریکی ہے مجید گل نے حساب لگایا ہے کہ دس افراد کی فہرست پیش کر کے وہ ایک لاکھ روپے انعام حاصل کرینگے میں نے فہرست دیکھی تو 2 افراد میرے واقف نکلے یہ وہ لوگ ہیں جنکی ماں پاکستانی ہے جبکہ باپ غیر ملکی ہے میں نے کہا ’’مجید گررورہ ! 20 ہزار روپے ہاتھ سے نکل گئے ‘‘ اُس نے کہا کیوں ؟ میں نے ان کو بتایا کہ ایم کیو ایم نے جنرل مشرف کے ذریعے آئین میں ترمیم کرکے غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ دینے کا راستہ نکا لا ہے وہ راستہ یہ ہے کہ جس کی ماں پاکستانی ہوگی وہ شناختی کارڈ کا مستحق ہوگا کراچی ، حیدر آباد ، سکھر اور میر پور خاص میں ایم کیو ایم کو اس طرح کے قانون کی ضرورت تھی ان شہروں میں بڑی تعداد میں بھارتی شہر ی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اُن پر کسی بھی وقت کریک ڈاؤن کا خطر ہ تھا یوں اس قانون کے اولین استفادہ کنند ہ گان بھارتی شہر ی بنے دوسرے نمبر پر ازبک ، تاجک افغان، عرب ، امریکی ، افریقی اور چیچن جنگجوؤں نے اس قانون سے فائد ہ اُٹھا یا یوں پاکستانی شناختی کارڈ بدنام ہوا اور پاکستانی پاسپورٹ کی مٹی پلید ہوگئی مجید گل نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے 18 اپریل 2000 ؁ء کوسابق صدر جسٹس محمد رفیق تارڑکے دستخظ سے جاری ہونے والا آڑڈ یننس ان کو دکھا یا اس آرڈیننس کے تحت پاکستان کی شہر یت کے قانون مجریہ 1951 میں معمولی ترمیم یعنی ایک لفظ کی ترمیم کر کے پاکستانی شہریت کا بیڑہ غرق کیا گیا ہے 1951 ؁ء میں پاکستان کی شہریت کا جو قانون بنایا گیا تھا اس میں دیگر شرائط کیساتھ ایک شرط یہ تھی کہ درخواست دہند ہ کا ’’ باپ‘‘ پاکستانی شہریت کا حامل ہو انگریزی میں فادر Fahter کالفظ آیا تھا ایم کیو ایم کے قانون دانوں نے شریف الدین پیر زادہ کی وساطت سے آرڈیننس کا جو نیا ڈرافٹ جنرل مشرف کو تھما دیا اس میں باپ یعنی فادر کی جگہ والدین یعنی پیر نٹس (Parents) کا لفظ ڈال دیا گیا یوں ایک لفظ کی تبدیلی سے غیر ملکی کو پاکستانی شہریت اور پاکستانی پاسپورٹ ، پاکستانی ڈومیسائل کا اہل قرار دیا گیا وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ٹیم میں ماہرین موجود ہیں بیر سٹر ظفر اللہ خان آئینی امور کے ماہرہیں وزیر قانون زاہد حامد مد ظلہ مشرف کی کابینہ کے وزیر ررہ چکے ہیں گویا ’’ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی ‘‘ وزارت داخلہ کا حکم سرآنکھوں پر ، مگر اس پر عملدرآمد کاآغاز ایک بار پھر آئینی ترمیم سے کیا جائے آئینی ترمیم کے ذریعے جسٹس محمد رفیق تارڑ کے مبارک دستخط سے 18 اپریل 2000 ؁ء کے دن جاری ہونے والے آرڈیننس کومنسوخ کر کے پاکستانی شہریت کا 1951 ؁ء والا قانون دوبارہ اصلی حالت میں بحال کیا جائے 50 فیصد جعلی شناختی کارڈ صرف اس آرڈیننس کی منسوخ سے پکڑے جائینگے اور رنگے ہاتھوں پکڑے جائینگے ایک لفظ کی تبدیلی سے کتنا بڑا فرق پڑتا ہے ؟ اس کااندازہ ہر اس شہری کو ہے جو قانون سے معمولی وا قفیت رکھتا ہو یہ سا بق وزیر اعلی محمد اکرام خان درانی کے دور کا واقعہ ہے دفتری خط و کتابت اردو میں ہوتی تھی ایک دیانت دار اور قابل اافیسر کی ڈیپوٹیشن کو ختم کرنے کا حکمنامہ تیا ر کر کے منظوری کیلئے وزیر اعلی کو بھیجاگیا وزیر اعلی نے ڈرافٹ میں ’’ختم ‘‘کی جگہ اپنے قلم سے ’’بحال ‘‘لکھا۔اور نوٹ شیٹ پر تحریر کیا یہ تجویز ایک لفظ کی معمولی ترمیم کے ساتھ منظور کی جاتی ہے یوں ایک لفظ کی معمولی ترمیم نے حکمنامے کا پورا مفہوم بد ل کر رکھ دیا اور آفیسر سے جان چھڑانے والے اپنا سا منہ لیکر رہ گئے18 اپریل 0 200 ؁ء کے مذکورہ ارڈنینس سے پہلے کوٹہ سسٹم سے فائدہ اُٹھانے والے ماں کے ڈو مسائل کی بنیاد پر لاہور ،چکوال ،کراچی اور ملتان سے آکر گلگت ،وزیرستان اور چترال کا دومیسائل یا شناختی کارڈ نہیں لے سکتے تھے عدالتوں میں ان کے مقدمات خارج ہوتے تھے 18 اپریل 2000 ؁ ء کے بعد کوٹہ سسٹم کاسب سے زیادہ فائدہ اُن لوگوں نے اُٹھایا جو کوٹہ کے حقدار نہیں تھے عدالتوں نے ان کے حق میں فیصلے دیے گزشتہ 16سالوں کے اندر جتنے جعلی شناختی کارڈ اور جعلی پاسپورٹ جاری ہوئے ہیں ان میں اگر نصف سے زیادہ نہیں تو نصف کی تعداد ایسے کارڈوں اور پاسپورٹوں کی ہوگی جو 2000کے آرڈنینس کا فائدہ اُٹھاکر جاری کئے گئے اور آرڈنینس کی موجودگی میں نادرا ایسے کارڈوں کو منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں رکھتا اگر کسی تاجک ،ازبک ،چیچن ،افریقی ،امریکی ،افغانی یا بھارتی شہری نے اپنی ماں کی وساطت سے شہریت حاصل کی ہے تو یہ اس کا حق بنتا ہے اگر آج ہماری حکومت نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایسے تما م کارڈ منسوح کر کے ملک کو دہشت گردوں کے غلبے سے نجات دینا چاہتی ہے تو اس کی ابتد ء شہریوں کو انعام کا لالچ دے کرنہ کی جائے بلکہ اسکی شروعات کیلئے پاکستا نی شہریت کے قانون مجریہ 1951 ؁ ء میں 18اپریل 2000 ؁ ء کے روز کی گئی ترمیم واپس لیکر جرتمندانہ قدم اُٹھایا جائے ایک غیر ملکی پاکستان کے اندر حساس مقامات پر 10دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے اس کے باوجود اُ س کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ ہے اُس کے 7بھائی بہنوں کے پاس بھی ہے جب تک آ پ سابق صدرجسٹس محمد رفیق تارڑ کے دستخط سے جاری ہونے والے آرڈنینس کو منسوخ کرکے پاکستانی شہریت کا اصل قانون مجریہ 1951بحال نہیں کرینگے تب تک آپ جعلی شناختی کارڈ اور جعلی پاسپورٹ رکھنے والے غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف نمایا ں کامیابی کا دعویٰ نہیں کرسکنگے ۔بلاشبہ ضرب عضب کے ذریعے مسلح افواج نے کراچی اور کوئٹہ سے لیکر وزیرستان تک دہشت گردوں کی کمر توڑ کررکھ دی ہے لیکن ہمارا قانونی ڈ ھانچہ اب بھی دہشت گردوں کو سہولتیں دے رہا ہے دہشت گردبھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں مگر وہ اب بھی مایوس نہیں ہوئے بقول مرزا غالب ؔ
گوہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغرو مینا میرے آگے
مجید گل کے پاس 10جعلی شناختی کارڈ وں کی فہرست ہے مگر اس کو انعام نہیں ملے گا کیونکہ 18اپریل2000کا ترمیمی آرڈنینس جعل سازی کو تحفظ دیتا ہے ۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔