صحت کے انقلاب کے نام پر لوگوں کو بے وقوف نہ بنایا جائے ۔ اور چترال کے لوگوں اور مریضوں پر رحم کیا جائے ۔

چترال ( نمائندہ چترال ایکسپریس) صوبائی حکومت کی صحت انقلاب سسٹم کو چترال کے مریض ہسپتالوں کی بجائے گلی کوچوں میں تلاش کر رہے ہیں ۔ کہ خدا کرے کہیں نظر آجائے ۔ کہ وہ اپنا علاج کر اسکیں ۔ فی الحال کی صورت حال یہ ہے ۔ کہ ہسپتال میں مریضوں کو اگر ٹیسٹ یا ایکسرے کی ضرورت پڑ تی ہے ۔ تو رشتہ دار اور دوست احباب مریضوں کو ویل چیئر پر بیٹھا کر یا سٹریچر پر ڈال کر سینکڑوں میٹر دورالخد مت لیبارٹری یا دیگر لیبارٹریزمیں لے جاتے ہیں ۔جہاں اُن کی ضرورت کے ٹیسٹ کی سہولیات میسر ہیں ۔ ہسپتال میں بجلی ہوتی ہے اور نہ جنریٹر کیلئے تیل میسر ہے ۔ یو ں ہسپتال کے تمام سٹاف کو بجلی نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ اور مریض رُلتے رلاتے ، آہیں بھرتے اور انقلاب کو کوستے پرائیویٹ طور پر اپنے علاج کرانے پر مجبور ہیں ۔ ہسپتالوں میں ادویات کی بہتات کی اتنی خبریں اور افواہیں ہیں ۔ کہ ادویات ان افواہوں میں دفن ہو چکی ہیں ۔ اور لوگ بازاروں اور میڈیکل سٹوروں میں اُنہیں خرید رہے ہیں ۔ اسی صحت کے انقلاب کے دوران مستوج کے ایک نوجوان شہریار خان کو دو موٹر سائیکل سواروں نے کچلنے اور مارنے کی کوشش کی ۔ لیکن اُن کی قسمت جاگ اُٹھی ۔ کہ تکہ بوٹی ہونے کے باوجود اُنہیں صحت کے انقلاب سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا ۔ خود تو بات کرنے سے قاصر ہیں ۔ لیکن اُن کے ایک رشتہ دار نوجوان نے بتایا ۔ کہ ایکسڈنڈنٹ ہوئے تین دن ہو گئے ۔ مستوج ہسپتال اے کے ایچ ایس پی کے رحم و کرم پر ہے ۔ جہاں سے اُنہیں سالم چترال ریفر کیا گیا ۔ کیونکہ علاج معالجے کی صورت میں نوجوان کی حالت مزید بد تر ہو سکتی تھی ۔ یو ں چوبیس گھنٹوں کے انتظار کے بعد ایمبولینس میں جب ہچکولے کھاتے چترال پہنچایا گیا ۔ تو مختلف ٹیسٹوں کیلئے چترال شہر کے گلی کو چوں میں سٹریچر میں ڈال کر پھرا رہے ہیں ۔ کیونکہ ڈاکٹر وں نے جو ٹیسٹ لکھ دیا ہے ۔ ہسپتال میں اُن کیلئے کوئی انتظام نہیں ۔ مجبورا اُنہیں ہسپتال سے باہر لے جانا پڑ رہا ہے ۔ انہوں نے دُہائی دیتے ہوئے کہا ۔ کہ خدا کے واسطے صحت کے انقلاب کے نام پر لوگوں کو بے وقوف نہ بنایا جائے ۔ اور چترال کے لوگوں اور مریضوں پر رحم کیا جائے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔