مولأالدین شاہ، سماجی نبض شناس استاد

………….۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمس الحق قمرؔ ، گلگت
میں نے ہزار جتن کی کہ استاد محترم اپنا سنِ پیدائش بتا دے لیکن میری کوشش وقتی طور پر رائگان رہی ۔ بہر حال میرے استفسار پر کہ آن جناب نے میڑک کہاں سے کس سن میں پاس کیا تھا ، یہ راز بھی خود بخود فاش ہوا ۔ سن ۱۹۶۱ ؁ ء میں ہائی سکول چترال میں داخلہ لیا اور ۶۳ ء میں میٹرک پاس کیا ، پیدائش کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ قدرے طویل قد و قامت ، گورا چہرہ ، کُھلا ماتھا ، سر پر سفید رنگ کی چترالی ٹوپی، پھول کی مانند کھَلتی ہوئی پر نور آنکھیں اور اُن پر نظر کی عینک ،متبسم خط و خال ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملتے ہیں ، اور جب مسکرا کے مصافحہ کرتے ہیں تو سامنے والا وثوق سے کہ سکتا ہے کہ شاہ صاحب DSC06847کا دل ہر ملنے والے کیلئے فرش راہ ہے ۔ میں نے آپ سے گفتگو کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا کہ موصوف کو ٹیچرز ایسو سی ایشن کا صدر نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بننا چاہئے تھا کیوں کہ عوام کی نفسیات اور خواص کی نبض شناسی پر آپ کوخاص ملکہ حاصل ہے ۔بہت ہی چھوٹی عمر میں اُس زمانے کے وزیر اعظم کنول ادریس صاحب ( ڈپٹی کمشنر چترال کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا ) سے مبلغ تیس روپے ماہانہ وظیفہ پایا جبکہ اُسی سکول کے ہیڈ ماسٹر عزت مآب میاں جمیل الدین ساکنہ مردان کی ماہانہ تنخواہ مبلغ اٹھائس روپے ماہانہ تھی۔ کہانی یہ تھی کہ آپ کے والد سید مراد علی شاہ ( مرحوم ) اپنے زمانیکے مشہور سیاسی بصیرت رکھنے والی شخصیات میں سے ایک تھے ۔ بابائے قوم قائد اعظم نے سید مراد شاہ کے نام کئی ایک ذاتی اور سیاسی خطوط لکھے تھے جوکہ آپ کے صاحب زادہ جناب مولاء الدین شاہ کے پاس محفوظ تھے ۔ سید مراد شاہ ( مرحوم ) نے جب مسلم لیگ کی پرچار شروع کی تو علاقے کے کچھ شر پسند عناصر نے سید مراد علی شاہ کے خلاف وزیر اعظم کنول ادریس کو شکایت کی تاکہ اُسے سیاسی سرگرمیوں سے روکا جا سکے۔ لہذا مولأ الدین شاہ نے اپنے والد صاحب کی سیاسی خدمات کی وضاحت کرتے ہوئے ایک درخواست کے ہمراہ وہ تمام خطوط جو قائد اعظم نے آپ کے والد محترم کے نام لکھے تھے، کنول ادریس کی خدمت میں پیش کئے ۔ وزیر اعظم ( دپٹی کمشنر چترال) کنول ادریس نے ان خطوط کے بغور مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر قائد اعظم نے مراد علی شاہ کو شاندار الفاظ میں ذاتی خطوط لکھے ہیں تو مراد علی شاہ قومی سطح پر شہرت یافتہ رہنما ہیں لہذا ڈپٹی کمشنر نے نہ صرف مراد علی شاہ کی سیاسی سرگرمیوں کو سراہا بلکہ اُن کے صاحب زادہ محترم مولأ الدین شاہ صاحب کے لئے سرکاری خزانے سے مبلغ تیس روپے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا جو کہ میٹرک کرنے تک جاری رہا ۔ اُس زمانے میں چترال میں ملازمت کے لئے دو ہی ادارے تھے سکول میں معلم بننا یا گودام میں کلرک بننا۔ ۱۹۶۳  ء میں تحصیل تورکہو کے گودام میں اسامی نکل آئی تو شاہ صاحب نے گودام کلرکی کے لئے درخواست جمع کی اُسی دوران مشہورِ زمانہ ماہر تعلیم جناب شاہ کو مولأ الدین شاہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے گودام کلرکی کے لئے درخواست دی ہے تو جناب شاہ ( مرحوم ) نے فوری طور پر شاہ صاحب کو بلا کر اُسے استاد بن کر اپنے علاقے کی خدمت کرنے کی تلقین کی ۔ جناب شاہ کی ہدایت اور نصیحت پر عمل کرتے ہوئے شاہ صاحب نے استاد بننے کی ہامی بھر لی ۔اور چوئنج سکول میں درس و تدریس شروع کا کام شروع کیا ۔
شاہ صاحب کا ایک کمال یہ ہے کہ آپ کسی بھی گروہ ، جماعت، اشخاص، قبیلوں یا عوام کے اندر پیدا ہونے والی کسی بھی گھمبیر اور
پچیدہ چپقلش اور گتھی کو سلجھانے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں ۔ آن جناب کلاس روم کے کاموں سے جب فارغ ہوتے تھے تو علاقے کے مختلف تنازعات کو حل کرنے کے چکروں میں سر کھپاتے تھے ۔ آپ کی سیاسی و پیشہ وارانہ بصیرت و بصارت اور دور اندیشی و خیر اندیشی کی وجہ سے چترال کے تمام اساتذہ نے آپ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے آپ کو اساتذہ یونین کا صدر بنایا ۔نومبر ۱۹۷۳  ء میں جب ذولفار علی بھٹو صاحب مستوج تشریف لائے تو شاہ صاحب نے بھٹو کا ہاتھ پکڑ کر نہ صرف اساتذہ کے مسائل کے حوالے سے درخواست کی بلکہ چترال کے تمام سرکاری ملازمیں کو پسماندہ علاقے میں کام کرنے کے الاونس دلانے کی فوری اور دستی منظوری لے لی۔اپنی تمام تر مصروفیات کے ساتھ کمرہ جماعت میں ڈٹ کے کام کرتے تھے زندگی بھر اپنے پیشے کو خلوص سے نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور کامیابی و کامرانی سے سرخ رو ہوتے رہے ۔لیکن فارغ وقت میں تنازعات سلجھانا اور سیاست کرنا آپ کے من پسند مشاعل میں سے تھے ۔ موصوف کی سیاسی سرگرمیوں سے محکمہ تعلیم بے خبر نہ تھی لیکن موصوف اپنے پیشہ وارانہ اوقات اور کام کی انجام دہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے اس لئے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام بھی شاہ صاحب کا نہ صرف دل سے احترام کرتے تھے بلکہ آپ سے مشورہ لینے کے ساتھ ساتھ آپ ہی کے ایما پر علاقے میں تعلیم کو فروع دیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کوئی سخت مزاج آفسر محکمے میں وارد ہوئے اور انہوں نے اپنی سرکاری طاقت کے بل بوتے پرشاہ صاحب کو ایک سرکاری مراسلے کے ذریعے تنبیہ کرتے ہوئے اُسے اپنی تمام تر توجہ اپنے سکول کی طرف مبذول کرنے کی سختی سے ہدایت کی ۔ شاہ صاحب چونکہ پروفشنل آدمی تھے ، سرتسلیم خم کیا ، جواب لکھا کہ آئیندہ وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُنہی دنوں چترال کے قد آور سیاسی و سماجی شخصیت بابائے لاسپور نے سرکار سے کسی ناچاقی کی بنیاد پر اپنے علاقے میں چلنے ولاے تمام سرکاری دفاتر بند کروادیے تھے ان سرکاری اداروں میں سکول کھولے رکھنا ضلعی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل تھا ۔لیکن بابائے لاسپور کے سامنیجو بھی جاتا تھا گھٹنے ٹیک دیتا تھا ۔ محکمہ تعلیم کے اُسی آفیسر پر دباؤ پڑا کہ وہ لاسپور جاکر بابائے لاسپور سے سمجھوتہ کرکے سکول کھلوادے ۔ اس کام کی مثال ایسی تھی گویا کسی چیونٹی کو ہاتھی سے ٹکر لینے کے لئے کہا جا رہا ہو۔ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ آفیسر نے علاقے کے تمام اہل خرد لوگوں سے مشورہ لینے کے بعد اس نتیجے تک پہنچا کہ بلائی چترال میں صرف مولأ الدین شاہ ایسی شخصیت ہیں جو کہ یہ معمہ حل کر سکتے ہیں ۔لہذا سیاست سے باز رکھنے والے آفیسر نے شاہ صاحب کو دوبارہ خط لکھا کہ وہ اُ ن کے ساتھ لاسپور جا کر بابائے لاسپور سے سکول کھولنے کی اجازت لے لے ۔ شاہ صاحب نے صاف طور پر انکار کرتے ہوئے خط لکھا کہ سیاسی اور عوامی مسائل کے ساتھ الجھنے سے سرکار نے منع کیا ہے ، میں سرکار کا ملازم ہوں اور سرکار کے احکامات کی قدر کرنا میرے پیشے کا حصہ ہے ، حکم عدولی پیشے کے ساتھ ناانصافی ہے۔ البتہ یہ زمہ داری اگر مجھے سرکاری طور پر سونپی جائے تو میں اس بار گراں کو اپنے کمزور شانوں پر اُٹھانے کے لئے تیار ہوں گا ۔دوسرے دن وہی تند مزاج آفیسر چوئینج میں شاہ صاحب کے گھر وارد ہوئے اور اپنے پہلے دفتری تنبیہ کی تردید کرتے ہوئے دوبارہ ایک مراسلہ لکھا جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ موالأ الدین صاحب سکول کی سرگرمیوں کے ساتھ ملکی اور علاقائی تنازعات کی اصلاح میں اگر حصہ لیں تو محکمہ تعلیم کو کوئی شکایت نہ ہوگی ۔ یوں شاہ صاحب لاسپور تشریف لے گئے اور بابائے لاسپور سے اپنے خاندانی رشتے ناطے کی پاسداری کراتے ہوئے سکول کو اُسی دن کھلوا دیا ۔
موالأ الدین شاہ صاحب ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد گوشہ نشین ہیں تاہم سیاسی و سماجی امور میں آج بھی اُسی طرح منہمک ہیں جیسے آج سے تیس سال پہلے تھے ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ٰ آپ کو صحت دے اور آپ کو ہمیشہ خوش و خرم اور سر سبز و شاداب رکھے ۔ آمیں!
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔