……خاک شناسی۔۔۔۔۔۔جمہوریت کے بچے

……. شمس الرحمن تاجک……

وہ بھی کیا زمانہ تھا جب دیواروں پر لکھا ہوا کرتا تھا کہ ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ اس زمانے میں ہم خود بچے ہوا کرتے تھے اس لئے اس سے یہی سمجھتے تھے کہ جس بندے نے یہ سب لکھا ہے اس کے صرف دو بچے اچھے ہیں باقی بچے میرے جیسے بدتمیز ہوں گے گھروالوں کو تنگ کرتے ہوں گے اور ان کے ابو نے ان دیواروں پر لکھ دیا کہ ان کے صرف ’’دو ہی بچے اچھے ہیں‘‘ کچھ بڑے ہوئے تو ہمارے اصرار پر ہمیں سمجھا دیا گیا کہ یہ دیواروں پر لکھنے والے حکومتی اہلکار ہوتے ہیں ان اہلکاروں کے بارے میں پوچھ گچھ شروع کی تو پتہ چلا کہ ان میں سے کسی کے بھی 12 سے کم بچے نہیں ہیں تجسس پھر بڑھا بہت مغز ماری وہ بھی بچپن کی، کرنے کے بعد صرف اس حد تک ہمیں سمجھا دیا گیاکہ یہ لوگ باقی لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے صرف دو بچے اچھے ہیں باقی بچے بس غلطی سے آگئے ہیں، وہ ان لکھنے والوں کو بالکل اچھے نہیں لگتے بس اب آگئے ہیں تو ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے، پھر ہم بڑے ہوتے گئے اور کافی کچھ سمجھتے گئے جو آج تک نہیں سمجھے وہ یہی کہ آخر یہ دو بچے کس کے ہیں جو اتنے اچھے ہیں ہم نے بہت ڈھونڈا مگر کوئی ایک بھی بچہ ایسا نہیں ملا جس کی تعریف کو یوں نوشتۂ دیوار بنایا جائے، بہت سارے لوگوں سے پوچھا کسی کے پاس تسلی بخش جواب نہیں تھا آخر کار ہمارے ایک مہربان نے بتایا کہ یہ سب جمہوریت کا حسن ہے آپ نہیں سمجھیں گے۔
جمہوریت کے حسن کے بارے میں ہمیں بہت پہلے آگاہ کیا گیا تھا مگر وائے رے ہماری کم عقلی کہ اتنے عرصے بعد بھی ہماری سمجھ سے بالاتر ہی ہے، زمانہ سب کچھ سیکھا دیتا ہے، ہمیں بھی زمانے کی گردشوں نے سیکھا ہی دیا کہ یہ کونسے دو ہی بچے ہیں جن کی تعریف نوشتۂ دیوار ہے مگر جیسے جیسے جمہوریت مظبوط ہوتی گئی نوشتۂ دیوار بھی بدلتا گیا آج کل دیواروں پر لکھا نہیں جاتا کہ بچے دو ہی اچھے ہیں، بلکہ ہم خود ہی سمجھ گئے ہیں کہ اس پر آشوب اور جمہوری دور میں آپ ایک بچہ ہی پالیں بغیر بیچے، غنیمت ہے مگر ملکی حالات اور جمہوریت کی آسائشوں نے ہمیں یہ بھی سیکھا اور سمجھا دیا کہ آج کل کے جمہوری دور میں دو بچوں سے گزارہ نہیں ہونے والا۔
دو بچوں سے ایک خاندان کیسے گزارہ کرسکتی ہے وہ بھی اس دور میں؟ ملکی حالات دیکھیں اور خود تجزیہ کریں مملکت خداداد میں کوئی ایسا شہر نہیں جہاں کسی نہ کسی مسئلے کو لے کر غریب عوام روزانہ دھرنا نہیں دے رہے ہوں یا کوئی احتجاجی جلسہ نہیں ہورہا ہو، مسائل ہی اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ہم سے اور ہماری جمہوری حکومت سے سنبھالے ہی نہیں جارہے ہیں اور عوام الناس کا مجبور و لاچار طبقہ دھرنا دینے کے سوا اور کیا کرسکتی ہے، اب تو ہم لوگوں نے دھرنا دینا اپنے لئے آسان ترین کام سمجھ لیا ہے، ہمارے ایک دوست کے تین بیٹے ہیں، ان سے جب ان کے بیٹوں کے بارے میں پوچھا تو فوراً بول پڑے کہ یہ دو چھوٹے دھرنا دیتے ہیں بڑا والا ملازمت کرتا جس سے گھر چلتا ہے، مطلب اب دھرنا دینا بھی زندگی کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اب بچے دو ہی اچھے کا نعرہ نہیں چلے گا اگر آپ کے صرف دو ہی بچے ہیں تو گھر کا چولہا تو نہیں جلے گا، کم از کم چار بچے تو ہونے ہی چاہئیں، دو دھرنا دیں گے، دو کمائیں گے، فی زمانہ دھرنا دینا ملازمت کرکے گھر چلانے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔
دھرنا دینے پر یاد آیا کہ ہم جن لوگوں کے ساتھ ملکر دھرنا دے رہے ہیں کہیں وہ بھی ان لوگوں کے آلہ کار تو نہیں جن کے خلاف ہم دھرنا دے رہے ہیں، دھرنوں کے نتائج سے یہی تو لگتا ہے، ہمارے حالات بہتر کیوں نہیں ہورہے ہیں اتنے سارے دھرنوں کے بعد اب ہم اتنے لاچار ہوگئے ہیں کہ لاشیں لے کر 72گھنٹوں تک روڈ پر بیٹھے رہتے ہیں مگر ہمارے معزز سیاست دان اور حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے، شاید ان کو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ ان کے دور اقتدار میں ملک کے کس کونے میں کیا ہورہا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے مقتدر حلقے عوام جیسے کیڑے مکوڑوں کی کسی بھی ایکشن کو اتنا اہم ہی نہیں سمجھتے، ہم تو ووٹ دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور صرف ووٹ کے دنوں میں مقتدر حلقوں کو یاد آتے ہیں۔
ہم بہت سارے ایشوز پر ہر وقت احتجاج کے لئے تیار رہتے ہیں مگر کبھی کسی نے جمہوریت بلکہ ہمارے ملک میں ’’رائج الوقت جمہوریت‘‘ کے بارے میں احتجاج کا سوچا ہے؟ یا سوچ سکتا ہے؟کوئی ’’ملک دشمن‘‘ یا پھر ’’غدار‘‘ ہی ایسا سوچ سکتاہے، ہے نا؟ہر ایک کو اپنی روٹی کی فکر ہوتی ہے بابا! ’’رائج الوقت جمہوریت‘‘ سے بہت سارے ایسے لوگ مستفید ہورہے ہیں جو اصلی جمہوریت اگر نافذ ہوگیا تو جیلوں میں ہوں گے یا پھر چلو بھر پانی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چلو بھر پانی میں ’’نہانے‘‘ والے جمہوری لوگ اپنی روزی روٹی پر لات کیسے ماریں گے، وہ بھی ملک میں اصلی جمہوریت نافذ کرکے، وہی تو ہر شکل کی جمہوریت کے وارث ہیں، وہی تو ’’جمہوریت کے بچے‘‘ ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔