فکرو خیال……کیسی آزادی۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟

 ۔۔۔۔ فرہاد خان
ایک دوست نے بڑے پتے کی بات کی ، یار یہ آزادی کی جو جشن ہے نا، یہ صرف ہم غریبوں کی ہے ، ایک لمہے کے لئے سوچتا ہوں تو بات معقول لگتی ہے ۔ورطہ حیرت میں ہوں ملک کے ایک بڑے اور مشہور نجی ٹی وی چینل پر شکریہ پاکستان کے نام سے ایک مہم جاری ہے ، ملک کے چھوٹے بڑے شہروں ،دیہات، قصبوں اور گلی گلیوں میں قومی جھنڈوں کی بھرمار ہے ، لیکں جھنڈے خریدنے والے اور سجانے والے سبھی کے سبھی غریب ہی نکلے ، کسی امیر زادے کو ملک کی خاطر ایک دن کے لئے بھی جھنڈے خریدتے اور گھر محلوں میں سجاتے نہیں دیکھا، اب سمجھ میں آیا کہ واقعی یہ ملک غریبوں کا ہے ۔ غریب مکینوں کا غریب ملک ۔امیر اور صاحب ثروت لوگوں کا ہوتا تو ان کی دولت جائیداد اور پیسے بیرون ملک نہ ہوتے ۔ ملک اگر امیرزاوں کا ہوتا تو بیرون ملک اُن کے اف شور کمپنیان نہ ہوتیں۔ ملک اگر ان لوگوں کا ہوتا تو ان کے پیسے سوئس اور دیگر غیرملکی بینکوں میں نہ ہوتیں ۔ میرے دوست ، ملک کے لئے مر مٹنے والا یہ غریب ہی ہے ، ملک کے لئے لہو کا اخری قطرہ بہانے والا بھی یہ غریب ہی کا بیٹا ہے امیر اور امیر زادوں کے پاس اتنا وقت ہی کہان کہ ملک کا سوچیں۔ آزادی کا یہ جشن بھی اسی غریب کے مرہوں منت ہے ، لگتا ہے کہ یہ جھنڈے بھی ہم جیسے غریبوں کے لئے بنتے ہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ دیوانوں کے لئے چودہ اگست کے دن ناچنے ، جھنڈیا ں سجانے ،نعرہ لگانے کا اہتمام کرنا اور اپنے کاروبار چمکانے کا سنہرا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا ہے۔ سوشل میڈیا میں آزادی کے دن قریب اتے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دینے اور اپنے پروفائل پر قومی جھنڈا لگانے کا کام شروغ ہوچکا ہے اور اج سے نہ جانے کتنے بے شمار لوگ مختلف طریقوں سے مبارکباد کے پیغامات ایک دوسرے کو ارسال کرین گے لیکں، کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ملک کے بنے ہوئے تقریبا ارسٹھ سال کا عرصہ گزر چکا لیکں آج بھی ملک کے تقریبا 98 فیصد عوام انتہائی غربت میں گزر بسر کررہی ہے اور صرف دو فیصد ملک کے تقریبا تمام وسائل پر قابض ہے اور انہی غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی جو کروڑون خرچ کرکے اور اربوں ہضم کرکے اسمبلی میں قائد اعظم کی تصویر کے سامنے غریب عوام کے لئے مگر مچھ کے انسو بہاتے ہیں اور پھر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ یہ ملک غریبوں ہی کا ہے اور یہ جشن بھی سادہ لوح غریبوں کا ، ورنہ کوئی تو بتائے کہ لندن میں اربون روپے کے جائیداد کے مالک ،ملک کے وزیراعظم کے بیٹے نے کبھی اپنے ملک کی آزادی کے موقع پر اپنے گھر کو ملک کے جھنڈوں سے سجانے کی فکر کی ہے ، یہ ملک کے لئے زندہ باد کے نعرے لگانے والے بھی ہم غریب ہی ہیں اور اسی ملک کے گلیون کو سجانے والے بھی ہم۔ اُن کے پاس اتنی فرصت ہی کہاں کہ گھر بار سجائیں اور ملک کا سوچیں۔ اُن کا مقصد صرف اور صرف اپنا کاروبار چلانا اور اسے جاری و ساری رکھنا ہے اور ہمارا کام خالی پیٹ پر پتھر رکھ کر آزادی کا جشن ہم منائیں۔وہ جائیداد بنائیں، بیرون ملک بینکوں میں اپنے پیسوں کی فکر کریں اور آپ اور ہم ہیں کہ ملک لئے بلند بانگ نعرے لگانے والے۔ زرا سوچئے آج ملک ائی ۔ایم۔ایف کے قرضوں کے مرہون منت چل رہا ہے اور ہمارے حکمران ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھارہے۔ ہم زلفقار علی بھٹو کے فلسفے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکں بھٹو کے فلسفے پر عمل کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم آج عبدالستار ایدھی کی خدمات پر اُسے خراج تحسین ضرور پیش کررہے ہیں لیکں عبدالستار ایدھی کی طرح بننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ ہمارے حکمران ملک میں قانون کی حکمرانی کی بات تو کرتے ہیں لیکں قانوں پاسداری کرنے والا کوئی نہیں۔ ہم اپنے عوام کو صحت کی بہتریں سہولیات کے دعوے کرتے ہیں لیکں خود چھینک انے پر بیرون ملک علاج کے لئے جاتے ہیں۔ ملک کی ادھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور حکمران طبقہ بیرون ملک عیاشیوں میں مصروف ۔ یہ کیسی آزادی ہے جناب ہمارے اور آپ کے خون پسینے کی کمائی سے اورہمارے ٹیکس کے پیسوں سے یہ دو فیصد امیر طبقہ عیش کرے اور ہم اٹھانوے فیصد غریب انتہائی مفلسی میں آزادی کا جشن منائیں ۔ہماری آزادی کب سلب کی جاچکی ، ہمیں غلامی کی زنجیروں میں کب سے بند کیا جاچکا اور ہم ہیں کہ نکلے ہیں آزادی کا جشن منانے ، چراغا ن کرنے اور گھر بار سجانے ۔ ہماری آزادی اُس وقت سلب کی جاچکی جب قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک کے پہلے وزیراعظم کو قتل کیا گیا۔ ہماری غلامی کا دور اُس وقت سے شروغ ہوا اور ہنوز جاری ہے حیرت ہے کہ غربت و افلاس کے مارے لوگ ،گردے بیج کر اولاد پالنے والے لوگ جب جشن منائیں تو کس بات کی جشن اور کس خوشی میں جشن ؟ اور افسوس کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر ہم روز قائد کے ارشادات اور اقبال کے اشعار پوسٹ کرتے ہیں ، لائیک کرتے اور شیر کرتے ہیں لیکں ان ارشادات اور ان اشعار پر عمل کرکے ایک اچھے انسان بننے کی کبھی کوشش نہیں کرتے۔ لگتا ہے کہ ہمیں تاریخ ہی غلط پڑھائی گئی، لگتا ہے کہ ملک بنانے والوں کے ساتھ شروغ ہی میں غداری کی گئی ، نوابوں ، چوہدریوں اور وڈیروں نے ملک بننے کے اپنی اپنی جائیداد بچانے اور زیادہ سے زیادہ ہتھیانے کی اڑ میں اپنے راستے میں رکاوٹ ہر مخلص اور محب وطن لوگوں کو راستے سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کیں اور کامیاب ہوگئیں ۔ہمیں یقیناًغلط تاریخ پڑھائی گئی اور ملک کے نام پر ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا ۔ آج ہم انہی چند فیصد افراد کے ہاتھوں یرغمال لیکں ملک کے نام پر مر مٹنے والے بھی اخر کار ہم ہی ہیں ۔آج پھر ہم چودہ اگست منانے نکلے ہیں ، آج پھر جگہ جگہ ملک کے جھنڈیاں سجاکر ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ملک ایک شاد باد سرزمیں ہے ، قوت و اخوت عوام کی مثال کہیں نہیں ملتی، ہمارے عزم عالیشان سب سے بے مثال ہے ، رہبر ترقی و کمال کی معراج پر ہم ہی پہنچ چکے ہیں اور بھارت کے تقریبا 40 کروڑ مسلمان جو اب بھی وہاں پر آباد ہیں ہم سے ترقی میں بہت پیچھے ہیں ۔ نہیں میرے بھائی مفت اور مفید مشورہ یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ خالی خیالی دنیا سے ہمیں باہر آکر ہمیں جھانک کر ایک نظر اپنے ہمسائے ملکوں کی طرف دیکھنا ہے اور پھر فیصلہ کرنا ہے کہ آزادی کا جشن منانا ہے کہ نہیں ۔
بقول شاعر ۔۔۔
مجھ کو آزادی ملی بھی تو کچھ ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجر ہ رکھ دے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔