(رُموز شادؔ ) ’’وہ چمن کا حُسن کدھر گیا‘‘

(ارشاد اللہ شادؔ ۔بکرآباد چترال)
ہر کسی نے ایک دن اس فانی دنیا سے جانا ہے موت کا جو وقت متعین ہے وہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا لہذا کسی کی موت پر یہ کہنا کہ یہ بے وقت ہے اک شرکیہ کلمہ ہے۔اسبدی قانون کے تحت حضرت مولانا قاری عبد الغفار چترالی صاحب مدّظّلہ بھی اس دنیا سے چلے گئے اور یوں گئے کہ ہر آنکھ میں لہو، ہر جان میں کرب، ہر دل میں نوحہ اور ہر لب پہ دعائیں ہیں اور پوری امت مسلمہ سوگوار ہے ۔ کونسی آنکھ ہے جو پرُنم نہیں ، کونسا دل ہے جس میں غم نہیں … آہ حضرت صاحب ہم میں نہیں رہے ۔ حشر کا منظر ہے اس سے کم نہیں۔ عظیم انسان ہر روز پیدا نہیں ہوا کرتے ، مادر کھیتی ان کو روز بروز جنم نہیں دیتی ۔ ایسے انسانوں کیلئے تاریخ کو مدّتوں منتظر رہنا پڑتاہے۔تب کہیں انسان وجود میںآتا ہے جو عظمت ہی کے معیار پر پورا نہیں اترتا بلکہ اس کو دیکھ عظمت کا معیار قائم کیاجاتا ہے۔ کسے علم تھا کہ مداک چترال کے ایک پسماندہ گاؤں کے کچے مکان میں پیدا ہونے والا یہ بچہ امت مسلمہ کے آنکھوں کا تارا ہوگا، جو ہرسُو رشد و ہدایت علم و نور کی کرنیں بکھیرے گااور ہر مشکل اور آڑے وقت میں امت مسلمہ کی رہبری کریگا، جو وقت کی فرعونو ں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کی صدا بلند کریگا ۔ وہ عظیم شخصیت جس کی آنکھوں میں حیاء کی معصومیت ،فکر انگیزی، خطابت میں سحر انگیزی ، زہدو تقؤی اخلاص اور للھیت کا منظر تھا ، جس کے ظاہر اور باطن میں یکسانیت تھی۔ جس کا کردار چاند کی طرح شفاف تھا۔
حضرت قاری عبد الغفار صاحب چترالی نے سعادت کی زندگی پائی اور شہادت کی موت سے سرفراز ہوئے اور وہ اپنے رب کی حضور سرخرو ہوکر پہنچے بقول شخصے!
’’ قبائے نور سے سج کر لہو سے با وضو ہوکر ‘‘
’’وہ پہنچے بارگاہ حق میں کتنا سر خرو ہوکر‘‘
حضرت قاری چترالی صاحب کے کون کون سے اوصاف تذکرہ کیا جائے ، کون کون سی خوبیوں کو گنوایا جائے ۔ ان کی علم و عمل زہد وتقویٰ ، اخلاص و للّھیت ، عزم و ہمت سے بھر پور زندگی کے روشن روشن لمحوں کا تذکرہ کن الفاظ میں کیا جائے یہ تو اہل قلم اور مورّخین کا کام ہے۔ حضرت صاحب جامعہ محمدیہ بلال گنج ناصر پارک لاہور کے ذمہ دار مہتمم ہونے کا ناطے اکثر و بیشتر ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ کیونکہ راقم الحروف بھی کوئی چھ ساتھ ماہ اس کی سرپرستی میں اس کے قائم کردہ دینی ادارے میں زیر تعلیم رہا تھا ۔ حضرت صاحب ایک پُر خلوص اور مشفق شخصیت تھے اور جمیعت علماء اسلام کی ہر قسم کی سرپرستی فرمایا کرتے تھے۔ حضرت صاحب چترالی کی شہادت سے جہاں جامعہ محمدیہ لاہور کے در ودیوار اداس ہیں اور وہاں کے طلباء یتیم ہوگئے اسی طرح اس عظیم سانحے سے جمیعت علماء اسلام کو بھی شدید دھچکا لگا۔
حضرت صاحب چترالی شہید کی شہادت نا گہانی سے پوری امت مسلمہ ایک عظیم سانحے اور نقصان سے دوچار ہوگئی ہے ۔
علم کے اس دریا سے ہر سو لاکھوں چشمے پھوٹے تھے
نور کے اس چشمے سے لاکھوں نے فیض اٹھایاتھا
آج ہم میں علم و عمل ، رشد و ہدایت کا وہ پہاڑ موجود نہیں ہے ، وہ مسکراتا چہرہ موجود نہیں ہے ۔ اگر ہیں تو ان کی باتیں یا پھر لو دیتی ہوئی یادیں……. لیکن یہ بھی تو کچھ کم سرمایہ نہیں ۔بس صرف محسوس کرنے والا دل اور دیکھنے والی آنکھ چاہیے تو پھر وہ کہیں نہیں گئے۔
جانے والے رہے گا تو برسوں
دل سے نزدیک آنکھ سے اوجھل
آخر وہ کونسا جوہر تھا وہ کیا خصوصیات تھیں کہ حضرت چترالی صاحب ایک زمانے کا آنکھ کا تارا بن گئے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اس مضمون میں اس کے رفیقوں، شاگردوں اور عقیدت مندوں کیلئے حتیٰ الامکان سپرد قلم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آج ان کی وجود مسعود کی دیدار سے ہماری آنکھیں محروم ہیں لیکن ان کا کردار ہمارے لئے مشغل راہ اور قابل تقلید ہے ۔ مستقبل میں جب کبھی حریت فکر کی بات ہوگی، جب کبھی اعلائے کلمۃ اللہ کا سبق دہرایا جائے گا تو حضرت قاری عبد الغفار چترالی ضرور یاد آئیں گے۔ ان کے علم و حلم ، جرأت و حمیت اور عظمت و دانائی کا تذکرہ تا قیامت زندہ رہے گا۔
اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے اس درویش صفت انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس سے نواز دے۔
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یا د رکھے گا
قلم ایں جا رسید و سر بشکست….!!!
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔