دھڑکنوں کی زبان…….حق میزبانی

……………..محمد جاوید حیات……….

اس بار14آگست کی تقریبات میں پوری قوم نے عہد کرلیا تھا کہ انہیں’’پاکستانی ہونے پر فخر ‘‘ہے اس لئے تقریبات جذبہ جنون سے منائی گئیں۔ضلع چترال کے ضلعی انتظامیہ نے محکمہ ایجوکیشن کے تعاون سے بڑی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔محکمہ تعلیم مثالی تعاون تھا،گورنمنٹ سنٹینیل ماڈل ہائی سکول برئے طلباء چترال کا پرنسپل اساتذہ اور طلباء کو میزبانی کا شرف حاصل تھا۔قوم کی آزادی کی تقریب قوم کے معماروں کی محنت اورتیاری سے منانے کا اہتمام تھا۔ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر چترال سید مظہر علی شاہ انتظامیہ کی طرف سے پروگرام کے انچارج تھا۔پروگرام میں مختلف Eventsتھے۔مختلف پرائیویٹ اور گورنمنٹ سکول کے بچے بچیاں پروگرام میں مدعو تھے اور مختلف سرگرمیوں سے پروگرام کو رونق بخش رہے تھے۔شندور میں چترال پولو کی فاتح ٹیم مدعو تھی۔ہائی ایچیورز کو شیلڈسرٹفیکیٹ اور نقد انعامات دینے کا انتظام تھا۔ہائی ایچیورز میں پرائیویٹ سکولوں کے میٹرک کے امتحان میں ٹاپ کرنے والے بچے بچیاں تھی۔ادبی مقابلوں میں پورے صوبے میں اول دوم آنے والے طلباء تھے۔کھیل تھا۔10دن سے محکمہ تعلیم کا ہائی کمان اور سکول کا پرنسپل اور عملہ ہمہ تن مصروف تھے۔سکول میں سارے انتظامات بچے اور اساتذہ نے کی۔بارڈر پولیس کے جوان نگرانی کرتے رہے۔سکول کی طر ف سے اے اے سی صاحب اور اس کے عملے کو ظہرانہ دیا گیا۔شام تک سارے انتظامات مکمل ہوئے۔صبح تڑکے سکول کا عملہ پہنچا۔ایم پی اے سردار حسین مہمان خصوصی تھے۔ضلعی نائب ناظم مولانا عبدالشکور ،ڈی سی چترال،ای ڈی او،پرنسپل،سیاسی عمائدین،پروفیسرز،بزرگ شہری ،ڈاکٹرز ،پولیس افیسرز،مختلف پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کے پرنسپلرز اساتذہ اور بچے پروگرام میں شامل تھے۔تقریب شایان شان طریقے سے منائی گئی۔لوگوں نے اپنے ہیروز کو داد دی جن میں امتحانوں میں کامیاب طلباء اور چترال پولو کی فاتح ٹیم شامل تھی۔مگر حاضرین انگشت بدندان رہے جبکہ اردو تقرری مقابلے میں پورے صوبے میں دوم آنے والے طالب علم ہیروز میں شامل نہیں،چترال میں اول آنے والا ہیرو تھا۔انگریزی تقریر میں پورے صوبے میں تیسری پوزیشن لینے والا چترال کا بیٹا ہیرو نہیں چترال میں امتحان میں تیسرے نمبر پر آنے والا طالب علم ہیروتھا۔یہ کیسا فیصلہ ہے یہ کیسی سوچ تھی۔یہ کیسا وژن تھا۔البتہ وہ طلباء سراپا سوال تھے یا تو یہ تھا کہ وہ گورنمنٹ سکولوں کے تھے اس لئے گورنمنٹ سکول کے بچے کی تقریر کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔اگر متعلقہ سکول بھی اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک ایک لفافے تھمادیتے تو یوں مایوسی نہ ہوتی۔بہرحال ہم آزاد سرزمین کے آزاد لوگ ہیں۔آزاد لوگ داد کے مستحق ہوتے ہیں۔آزادی خود شاباشی ہے۔خود انعام ہے خود معیار ہے۔خود حوصلہ افزائی ہے۔ان بچوں کی آنکھوں میں چمک ضرور تھی اگر کوئی اس کومحسوس کرتا ،جھنڈے کی سلامی،قومی ترانہ،ملی نغمے۔مزاحیہ خاکے اس پروگرام کی رونق تھے۔لمبی چوڑی تقرریں اور تشریحات اور رسمی نصیحتوں سے زیادہ موثر اور دلچسپ یہ سرگرمیاں تھیں۔محکمہ تعلیم نے حق میزبانی ادا کیا۔پاکستان سے ،آزادی سے اور دھرتی سے محبت کا حق ادا کیا۔قومیں تعلیمی اداروں میں بنتی ہیں یہ اساتذہ کے ہاتھوں بنتی ہیں۔ان نکی خدمات حاصل کرنا بیدار منتظمین کی صلاحیت ہوتی ہے۔پھر ان کی خدمات کوسراہنا دور اندیش منتظمین کی صلاحیت ہوتی ہے۔استاد کی سروس ہرزمانے میں دیدنی ہے۔بڑا اچھا لگا جب استاد کے ہاتھوں میں پروگرام پُررونق ہوا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔