دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ’’کے مینیا شیرنی ‘‘ ممتا دشمن کو بھی ماں بناتی ہے )

……………….تحریر: شمس الحق قمر ؔ بونی حال گلگت ………

کمرہ جماعت میں افسانوں کی باری آئی تو ’’تحریک‘‘ ہاتھ لگا جو کہ پریم چند کا لکھا ہوا مشہور افسانہ ہے ۔آ ج کا طریقہ کار یہ تھا کہ میں اپنے طلبہ کو یہ افسانہ ایک بہت ہی مختصر کہانی کی صورت میں بتاؤں جسے زبان عام میں خلاصہ کہا جاتا ہے ۔ افسانے کی کہانی ایک ایسے لڑکے کے گرد گھومتی ہے جو سکول کی تاریخ میں سب سے شریر طالب علم ہے ۔ فساد برپا کرنا ، بچوں کو آپس میں لڑانا، اساتذہ کو تنگ کرنا ، غیر ضروری گروہ بندی اور سکول کے نظم و ضبط کو پامال کرنے میں اُس لڑکے کا ایک نام تھا ۔ افسانے میں پریم چند نے لڑکے کا فرضی نام سورج پرکاش رکھا ہے ۔سکول میں کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ سورج پرکاش کوئی شرارت نہ کرے ۔ پرکاش یہی کوئی چودہ سال کی عمر کا بچہ تھا لیکن سکول میں کسی کے بھی قابو میں نہیں آتا تھا ۔ سکو ل میں ایک استاد تھا جو کہ پرکاش کی اچھی تربیت کو چیلنج کے طور پر قبول کر کے اُس پر کام شروع کرتا ہے ۔ لیکن استاد کی تمام کوششیں رائیگان جاتی ہیں ۔ استاد نے بہت کوشش کی پر بچہ راہ راست پر نہیں آیا ۔ ایک دن استاد کے تبادلے کے ساتھ ہی پرکاش کی کہانی بھی ختم ہوئی ۔ استاد کو زندگی بھر کا یہ افسوس رہا کہ وہ ایک طالب علم کو ٹھیک نہیں کر سکا ۔ جس راستے سے پرکاش جا رہا تھا وہ ، لٹیروں ، قاتلوں اور چوروں کا راستہ تھا ۔ یہ ٹیچر اُسی سکول میں کچھ مدت کے لئے اور رہتے تو شاید پرکاش کی اصلاح ہوتی ۔ بہر حال یہ سب تقدیر میں نہیں تھا ۔ استاد اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد گنگا کے کنارے ایک چھونپڑا بناتا ہے ، اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے ایک کمرے میں سکول کھولتا ہے اور آس پاس کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی زمہ داری اُٹھا تا ہے ۔ ایک دن ایک سرکاری گاڑی آکے سکول کے عین دروازے پر رکتی ہے ۔ اس گاڑی کے ساتھ پولیس کا ایک چاق و چوبند دستہ اور کچھ سول لوگ بھی ہیں ۔ یہ اُس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی گاڑی ہوتی ہے ( پرانے زمانے میں ڈپٹی کمشنر اپنے علاقے کاسب سے بڑا راجہ ہوا کرتا تھا ۔ سرکار کی پوری طاقت ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوا کرتی تھی علاقے کے تمام نیک و بد کا وہی زمہ دار ہوا کرتا تھاکچھ علاقوں میں اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر کو وزیر اعظم بھی کہا جاتاتھا ) بہر حال ڈپٹی کمشنر کی گاڑی آکے رکی تو سکول کے ماسٹر کو بڑی پریشانی ہوئی کیوں کہ علاقے کے ڈپٹی کمشنر کا بغیر اطلاع کے سکول کے معائنے کے لئے تشریف لانا کوئی عام بات نہ تھی ۔ پر تماشا یہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر اپنی گاڑی سے اُترتے ہی سر کے بل جھک کے ماسٹر کی جانب بڑھنے لگے ۔ اُدھر ماسٹر کے اوسان خطا ہوئے تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ ڈپٹی صاحب اتنے تعظیم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ قریب آکر کمشنر صاحب ماسٹر کے قدموں پر گر پڑے ۔ تمام تر علاقائی اور روایتی تعظیمات بجا لانے کے بعد ڈپٹی کمشنر کھڑے ہوکر ماسٹر کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے ’’ سر پہچانا نہیں ‘‘ ماسٹر صاحب نے خوب غور سے دیکھا اور بولے ’’ تم سورج پرکاش تو نہیں ‘‘ ڈپٹی کمشنر نے اثبات میں جواب دیا ’’ جی حضور میں وہی گناہگار ہوں ‘‘ ماسٹر صاحب کو حیرت بھی ہوئی اور بے انتہا مسرت بھی ۔ اب ماسٹر صاحب سے رہا نہ گیا ، پوچھ ہی لیا ’’ اچھا پرکاش یہ بتاؤ کہ تمہارے اندر یہ تبدیلی کیسے آگئی ؟‘‘ پرکاش نے اپنی زندگی سے متعلق ایک سبق آموز کہانی بتا دی ۔ ہوایوں کہ پرکاش کا راستہ یقینی طور پر درست نہیں تھا اور وہ اُسی راستے پر چلتے رہتے تو آج ڈپٹی کمشنر نہ بنتے بلکہ کسی جیل میں ہوتے ۔ یہ سب کچھ موہن نامی ایک بچے کی وجہ سے ہوا تھا ، موہن پرکاش کا مامو زاد بھائی تھا ۔ موہن کے اوپر سے ماں کی محبت کا سایہ بہت پہلے اُٹھ چکا تھا ، پرکاش کے مامو ں نے موہن کو ہاسٹل میں رکھنے کے لئے پرکاش کے پاس لایا لیکن ہاسٹل میں بچے کو ساتھ رکھنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے پرکاش ہاسٹل سے نکل گئے اور باہر ایک کمرہ کرایے پر لیا اور بچے کو اپنے پاس رکھا ۔ بچہ اکثر بیمار رہتا ۔ چونکہ ماں کی ممتا کی شدید پیاس تھی اس لئے شاید راتوں کو ماں کی تلاش میں جاگ جاتے اور چونک کر بستر پر اُٹھ بیٹھتے اور اکثر خوزدہ ہو کر پرکاش سے چمٹ جاتے اور اُسی کے ساتھ اُسی کے بستر پر سو جاتے ۔ سورج پرکاش پر بڑی زمہ داری تھی کیوں کہ اُس کے ماموں نے اُس پر بھروسہ کیا ہوا تھا اس لئے پرکاش کو شدید احساس تھا کہ موہن کی پرورش میں کوئی کمی نہ آجائے ۔ سورج پرکاش کو ر تجگے کرنے پڑتے ۔ صبح سویرے اٹھنا موہن کے لئے ناشتہ تیار کرنا ، اُس کے کپڑے استری کرنا ، بوٹ پالش کرنا سورج پرکاش کی اولیں زمہ داریوں میں شمار تھے ۔ موہن نے بھی پرکاش کے اندر ممتا کی خوشبو کی لذت پا لیا تھا ۔سورج پرکاش ایک رات دوستوں کے ساتھ کہیں گئے تھے واپسی پر دیکھا تو موہن رات گئے تک جاگ رہے تھے ۔ اس واقعے کے بعد سورج پرکا ش کہیں نہیں گئے ۔ سورج پرکا ش سوچتا کہ بچے کی بہتر تربیت کے لئے ضروری ہے کہ میں خود ایک مثال بنو۔ یوں سورج پرکاش نے اپنی اصلاح شروع کی ۔ موہن کو پڑھانے کے لئے خود بھی دل لگا کر پڑھنا شروع کیا ، گالی گلوچ کم کرکے دعائیہ کلمات زبان میں عام کیا ۔ دوسرے لوگوں کی مدد بڑوں کا احترام چھوٹوں پر شفقت ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ پرکاش مکمل طور پر ایک اعلی طالب علم بن گئے اور سول سروس کے امتحان میں شریک ہو کر پہلی بار امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کر گئے۔ سورج پرکاش تو ڈپٹی کمشنر بن گئے لیکن موہن جسے پرکاش نے ماں کا سچا پیار دیا تھا ایک بیماری میں لقمہ اجل بن گئے ۔ اُس سانحے کا صدمہ اب تک پرکاش کے دل میں چبھتا ہے ۔
میں جب یہ کہانی بچوں کو سنا رہا تھا تو مجھے افریقہ کے جنگل میں رہنے والی ایک شیر نی کی ممتا کا آنکھوں دیکھا حال یاد آ رہا تھا ۔ میں نے سوچا کہ پرکاش کی محبت اور محنت کی کہانی کو بچوں کی اذہان پر مظبوط کرنے کے لئے مجھے اُس شیرنی کی کہانی سنانی ہو گی جس کا نام دیکھنے والوں نے’’ کے مینیا ‘‘ رکھا تھا ۔ ایک دن شیرنی کو زبرست بھوک لگتی ہے تو ہرنوں کے ریوڑ کا پیچھا کرتی ہے ۔ اُس جھنڈ میں ایک ہرنی اپنے ایک نوزائدہ بچھڑے کو پیچھے چھوڑ کر بھوکی شیرنی سے اپنی جان بچاتی ہوئی بھاگ جاتی ہے ۔ ہرن کا اپنی ماں سے جدا ،سہما اور ماں کے دودھ کا بھوکابچہ ،بھاگ نہیں سکتا ، سب سے پیچھے رہ جاتا ہے ۔ اتنے میں شیرنی پہنچ جاتی ہے ۔ لیکن کمال یہ ہوتا ہے کہ شیرنی بچے کو سونکھ سونکھ کے اُسے نہ صرف چھوڑ دیتی ہے بلکہ اپنی حفاظت میں رکھنا شروع کرتی ہے ۔ شیرنی کو شدید بھوک ہے لیکن وہ ہرن کے بچے کو چھوڑ کر اس لئے شکار پر نہیں جاتی کہ کہیں جنگل کے دوسرے جانور اس بچے کہ نہ کھا جائیں ۔ ادُھر ہرن کا بچہ شدید بھوک کی وجہ سے لاغر ہوتا جاتا ہے اور اِدھر شیرنی بچے کو چھوڑ کے شکار کے پیچھے نہیں جا سکتی ۔ دونوں بھوک سے نڈھال ہیں ، ہرنی کا بچہ اتنا چھوٹا کہ صرف اپنی ماں کا دودھ پی سکتا ہے باقی کچھ نہیں کھا سکتا۔ ہر ن کا بچہ اور شیرنی ایک ساتھ رہتے ہیں ، ایک ساتھ چلتے ہیں اور ایک ساتھ سوتے ہیں۔ ہرن کے بچے کی بھو ک اپنی جگہ شیرنی کی ممتا جو حاصل تھی وہ سب پر بھاری تھی ۔ ہرن کا بچہ بھوکا تو تھا لیکن جنگل کی ملکہ کی محبت جو حاصل ۔ میں جب ٹیلی وژن پر یہ پروگرام دیکھ رہا تھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آرہا تھا ۔ کہ ممتا دشمن کو بھی ماں بناتی ہے ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں

اترك تعليقاً

زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔